|

وقتِ اشاعت :   August 14 – 2023

بلوچستان میں حالیہ ڈیجیٹل مردم شماری پر سیاسی ومذہبی جماعتوں کی جانب سے شدید تحفظات کااظہار کیاجارہا ہے کہ ہماری پچاس لاکھ آبادی کوگمشدہ کردیا گیا ہے نتائج کو تسلیم نہیں کرتے۔ اس حوالے سے اب کیا سیاسی لائحہ عمل اختیار کیاجائے گا یہ واضح نہیں ہے کیونکہ تمام سیاسی ومذہبی جماعتیں اب عام انتخابات کی تیاریوں میں لگ گئی ہیں جس سے یہ مسئلہ پس پشت چلاجائے گا۔ بلوچستان میں نئی حلقہ بندیوں اورنئی مردم شماری کے تحت عام انتخابا ت ہونگی تب بھی مرکز اور بلوچستان میں وہ نشستیں نہیں ملیں گی جس سے کم ازکم وسائل میں زیادہ حصہ مل سکے۔ این ایف سی ایوارڈ کا معاملہ اپنی جگہ موجود ہے مگر حلقہ بندیوں پر ڈٹ جاناضروری ہے کیونکہ بلوچستان ایک وسیع خطہ ہے اور آبادی منتشر ہے جس کی ترقی کے لیے ایک مکمل جامع پالیسی کے ساتھ مناسب نمائندگی بھی ضروری ہے۔

بہرحال موجودہ حالات کے پیش نظر یہ کہنا مشکل ہوگا کہ بلوچستان میں نشستیں بڑھ جائینگی اور بہت بڑی تبدیلی آئے گی۔ دوسری جانب وزیراعلیٰ بلوچستان میر عبدالقدوس بزنجو نے نئی مردم شماری پر بعض سیاسی حلقوں کی جانب سے جاری بحث کو بے معنی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ نئی مردم شماری پر تنقید کرنے والوں کو 1998 اور 2017 کی مردم شماریوں کا بھی جائز ہ لیکر اس سے بلوچستان کو پہنچنے والے نقصان کے ذمہ داروں کا تعین کرنا چاہیے ہم نے حقائق کو دیکھتے ہوئے نئی مردم شماری کو حقیقت پسند انہ انداز میں تسلیم کیا جس میں بلوچستان میں آبادی بڑھنے کی شرح دیگر صوبوں سے زیادہ ہے بلوچستان کا مسئلہ قومی اسمبلی میں دو چار نشستوں کے بڑھنے سے حل نہیں ہو گا اسکے لیئے سینیٹ کو با اختیار بنانا ہو گا جس میں تمام صوبوں کی متناسب نمائندگی ہے۔

ہمارا شروع دن سے مؤقف ہے کہ این ایف سی میں وسائل کی تقسیم کے فارمولے میں آبادی کے ساتھ ساتھ پسماندگی رقبہ اور امن امان کی صورتحال کے عوامل کو بھی شامل کیا جائے تبھی بلوچستان کو این ایف سی میں فائدہ پہنچ سکتا ہے۔ صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے وزیراعلیٰ نے ایک مرتبہ پھر صوبے کی تمام سیاسی جماعتوں کو دعوت دی ہے کہ آئیں مل بیٹھ کر صوبے کے مفادات کو مد نظر رکھ کر وفاق سے اپنے حقوق تسلیم کروائیں اگر ہم اس حوالے سے ایک پیج پر نہیں آتے تو وفاق کبھی بھی ہمیں ہمارے حقوق نہیں دے گا۔انہوں نے کہا کہ صوبے کی تمام سیاسی قیادت دور اندیشی اور سیاسی بالغ نظری کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک دوسرے پر تنقید کے بجائے حقیت پسند انہ اور فکری انداز میں مشترکہ لائحہ عمل اختیار کرے۔

وزیراعلیٰ بلوچستان میرعبدالقدوس بزنجوکاکہناہے کہ یہ درست نہیں کہ صرف بلوچستان کی آبادی کو کم کیا گیا ہے اگر دیکھا جائے تو بلوچستان کی آبادی کی شرح میں اضافہ ہوا ہے جو کہ دیگر صوبوں کے مقابلے میں زیادہ ہے ہمیں اس کے لئے بھی جدوجہد کرنے کی ضرورت ہے کہ ہمارے جو اضلاع پسماندہ ہیں انکے لیئے خصوصی گرانٹ ہونی چاہیے جیسا کہ دیگر ترقی یافتہ ممالک میں ہے اگر ہم صرف آبادی کو بنیاد بنا کر ہی ترقی کے خواب دیکھ رہے ہیں تو یہ صرف خواب ہی رہے گا کیونکہ میں سمجھتا ہوں کہ اگر آبادی کی بنیاد پر وسائل کی تقسیم کا مطالبہ کیا تو کل پھر یہ معاملہ صوبے میں بلوچ پشتون آبادی کے ساتھ ساتھ ضلعوں کی آبادی کے حوالے سے بھی اٹھ جائے گا۔

وزیراعلیٰ نے کہا کہ ہم اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ حالیہ مردم شماری میں بھی خامیاں ضرور ہو نگی لیکن حقیقت کو بھی ماننا چاہیے کہ کچھ اضلاع میں آبادی کو غیر فطری طور پر بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا اور اسکے ساتھ ساتھ ہمارے کچھ ایسے اضلاع بھی ہیں جہاں سیلاب کے باعث بہت سے لوگ نقل مکانی کر گئے اور ان کا اندراج مردم شماری میں نہیں ہو سکا لیکن ہم نے اسکے باوجود اس مردم شماری کو صوبے کے وسیع تر مفاد میں تسلیم کیا۔بہرحال وزیراعلیٰ بلوچستان میرعبدالقدوس بزنجو جو منطق پیش کررہے ہیں وہ سمجھ سے بالاتر ہے وزیراعلیٰ کا اپنا حلقہ بھی بہت بڑا ہے جہاں آج بھی بہت زیادہ مسائل ہیں، جس کی بنیادی وجہ مناسب حلقہ بندی اور نمائندگی کانہ ہونا ہے

اگر بلوچستان میں آبادی اور علاقے کے لحاظ سے حلقہ بندی کی جائے تو بلوچستان کی صوبائی اور قومی اسمبلی میں نمائندگی بہتر ہوگی اور اس سے فائدہ بھی بلوچستان کی سیاسی جماعتوں کو ہوگا کیونکہ جو بھی مرکزمیں حکومت بنے گی بلوچستان کا کردار اہم ترین ہوجائے گا جبکہ صوبائی اسمبلی کی نشستوں کے ذریعے سینیٹ میں بھی نمائندگی زیادہ ہوجائے گی اور بلوچستان کو درپیش چیلنجز سمیت بہت سارے مسائل حل ہونے کے امکانات پیدا ہونگے۔ بہرحال یہ فیصلہ اب بلوچستان کی سیاسی ومذہبی جماعتوں نے کرنا ہے کہ وہ نئی مردم شماری اور حلقہ بندیوں کے حوالے سے کیا حکمت عملی اپنائینگے فی الحال جو منظر نامہ دکھائی دے رہا ہے اس میں عام انتخابات میں جانے کی تیاری ہی نظر آرہی ہے۔