baloch student council

|

وقتِ اشاعت :   August 15 – 2023

لاہور : بلوچ اسٹوڈنٹس کونسل پنجاب کے ترجمان نے بلوچ طلباء اور عوام کی جبری طور لاپتہ ہونے کے محرکات میں شدت لانے کی مذمت کرتے ہوئے اسے بلوچ نسل کْشی اور تعلیم دشمنی کا منصوبہ قرار دیا ہے۔

اپنے جاری کردہ بیان میں بلوچ اسٹوڈنٹس کونسل پنجاب کے ترجمان نے کہا کہ حال ہی میں جبری طور پر لاپتہ طالب علم شمس بلوچ سمیت کئی بلوچ طلباء جوان پیر و ضعیف سب اس بلوچ دشمن پالیسی کا نشانہ بنے ہیں۔ انہوں نیکہا ہے کہ “شمس بلوچ سکنہ مولہ خضدار جو شعبہ زراعت جامعہ سرگودھا کے پانچویں سمسٹر کا طالب علم ہے”۔

وہ گرمیوں کی چھٹیاں گزارنے اپنے گھر خضدار گئے تھے۔ جہاں 13 اگست 2023 کو نامعلوم افراد ان کے گھر پر دھاوا بول کر انہیں جبری طور پر حراست میں لے کر اپنے ہمراہ لے گئے جو کہ تاحال لاپتہ ہیں۔ ریاستی اداروں کی جانب سے بلوچ طلباء کی گمشدگیوں کی فضاء کو ہوا دینا بلوچ قوم کو تعلیم و جدیدیت سے پرے رکھنے کی عکاسی کرتا ہے۔

ریاستی اداروں نے بلوچ طلباء کو ہراساں کرنے کی کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی جس سے متاثرہ شخص سمیت پورا خاندان ازیت میں مبتلا ہے۔

ترجمان نے کہا ہے کہ بلوچ طلباء کو گزشتہ چند سالوں سے شدید مشکلات کا سامنا ہے جن میں باقی مسائل سمیت انکی جبری گمشدگی سرِ فہرست ہے۔

بلوچ والدیں ہزاروں دشواریوں کو مات دے کر اپنے بچے جوان کرتے ہیں اور اپنی اور تمام خاندان کو ایک طرف کر کے محض ایک ہی بچے کو تعلیم حاصل کروانے کے اہل ہو جاتے ہیں اور وہ بچہ جب تعلیمی اداروں تک آخر کار بمشکل پہنچ ہی جاتا ہے۔

 تو وہاں نسلی تعصب اور جبری طور پر لاپتہ ہونے کا شکار بن جاتا ہے۔ اس غیر انسانی و غیر قانونی رویوں نے بلوچ طلباء کی ذاتی زندگی اور تعلیمی سفر پر انگنت منفی نقاش چھوڑے ہیں۔

جس کے سبب بہت سارے ہونہار اور علم دوست طلباء قلم و کتاب کی سنگتی چھوڑ کر مایوسی کی طرف بڑھ جاتے ہیں۔ علم و تعلیم اور کتابوں سے فراق کسی بھی نسل و قوم کی تباہی کا پہلا قدم ہے اور یہ ریاست اس مشن کو پایہِ تکمیل پہنچانے کے لئے بھر پور کوشاں ہے۔

جبری گمشدگی بلوچستان میں سنگین مسئلہ ہے اور ریاست کی جانب سے انسانی حقوق کی پامالیوں کا واضح اور ٹھوس ثبوت ہے۔

ترجمان نے کہا کہ حالیہ کچھ دنوں میں تقریباً بیس سے زائد طلباء اس غیر قانونی عمل کی نذر ہوچکے ہیں۔

جن میں زیادہ تر اب تک لاپتہ ہیں۔

اگرچہ ان میں کچھ لوگ جسمانی حوالے سے بازیاب ہو چکے ہیں مگر ابھی تک خوف کو ہراس اور ذہنی کشیدگیوں سے دوچار ہیں۔

کچھ دن قبل اسلام آباد سے بھی دو طلباء اْٹھائے گئے تھے جو بعد میں بازیاب کئیے گئے مگر یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ اس طرح کے اذیت کا شکار ہونے کے بعد انسان قطعاً متوسط نہیں رہ سکتا،کسی نہ کسی طرح اس کے برے اثرات ان پر قائم رہتے ہیں جو زندگی گزارنے کی عمل میں دخل پزیر ہوتے ہیں۔

ترجمان نے انسانی حقوق کے اداروں سے اپیل کی ہے کہ خضدار سے لاپتہ ہونے والے طالب علم شمس بلوچ سمیت دیگر لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے اپنا کردار ادا کریں۔