ملک میں عام انتخابات اب اپنے آئینی وقت پر نہیں ہونگے کیونکہ نئی حلقہ بندیوں کے بعد انتخابات کرانے کافیصلہ کیا گیا ہے۔ پرانی حلقہ بندیوں اورمردم شماری پر سیاسی جماعتوں کی جانب سے عام انتخابات کرانے پر تحفظات کااظہار کیا گیا تھا مگر اب نئی حلقہ بندیوں اور مردم شماری پر خدشات وتحفظات کا اظہار بھی سیاسی جماعتیں کررہی ہیں۔بلوچستان کی قوم پرست جماعتوں نے دعویٰ کیا ہے کہ بلوچستان سے ستر لاکھ افراد غائب کردیئے گئے ہیں،مردم شماری ہمیں قبول نہیں یقینا اب وہ اپنا مقدمہ آگے لیکر جائینگے تاکہ بلوچستان کی صحیح آبادی کو گنا جائے مگر اس کے باوجود بلوچستان ایک طویل وعریض رقبے پر مشتمل خطہ ہے جس کی آبادی پھیلی ہوئی ہے جہاں مردم شماری کے حوالے سے بہت سارے وسائل درکار ہوتے ہیں پہاڑی علاقوں تک رسائی کو ممکن بناناہوتا ہے گوکہ مردم شماری کے دوران عملہ نے اونٹوں پر سفر کرکے مختلف علاقوں میں جاکر مردم شماری کی مگر یہ نہیں کہاجاسکتا کہ مکمل طور پر سب علاقوں میں مردم شماری کی گئی ہے یہ مقدمہ اب قوم پرست جماعتوں کو لڑنا ہے اور انہیں شواہد بھی پیش کرنے ہیں تاکہ ان کا کیس مضبوط طریقے سے سناجائے۔ بہرحال الیکشن کمیشن نے حلقہ بندیوں کے شیڈول کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ عام انتخابات 90 دن میں نہیں ہو سکتے۔الیکشن کمیشن نے ملک بھر میں نئی مردم شماری کی بنیاد پر حلقہ بندیاں کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور حلقہ بندیوں کے لیے 4 ماہ کا وقت مختص کردیا ہے۔الیکشن کمیشن کا کہنا ہے کہ عام انتخابات 90 دن میں نہیں ہو سکتے، حلقہ بندیوں کی حتمی اشاعت 14دسمبرکو کی جائیگی، ملک بھر میں 8 ستمبر سے7 اکتوبر تک حلقہ بندیاں کی جائیں گی، اکتوبر سے 8 نومبر تک حلقہ بندیوں سے متعلق تجاویز دی جائیں گی، 5 ستمبرسے7 ستمبر تک قومی وصوبائی اسمبلیوں کا حلقہ بندیوں کا کوٹہ مختص کیا جائیگا، حلقہ بندیوں سے متعلق انتظامی امور 31 اگست تک مکمل کیے جائیں گے۔ الیکشن کمیشن کے مطابق اسلام آباد سمیت چاروں صوبوں کی حلقہ بندی کمیٹیاں 21 اگست تک قائم کردی جائیں گی، الیکشن کمیشن 10 نومبر سے 9 دسمبر تک حلقہ بندیوں پر اعتراضات پر فیصلے کریگا۔الیکشن کمیشن کا کہنا ہے کہ نئی حلقہ بندیوں کو 14 دسمبر تک حتمی شکل دی جائے گی،14 دسمبر تک حلقہ بندیاں مکمل کرنے کے بعد الیکشن کمیشن انتخابی شیڈول کا اعلان کریگا۔الیکشن کمیشن کا موقف ہے کہ ڈیجیٹل مردم شماری کی حتمی اشاعت کردی گئی ہے، الیکشن ایکٹ کے مطابق الیکشن کمیشن نئی حلقہ بندیاں کرنے کا پابند ہے۔واضح رہے کہ سابق وزیراعظم شہباز شریف نے 12 اگست کو مدت پوری ہونے سے قبل قومی اسمبلی تحلیل کرنے کی سمری پردستخط کرکے صدر کو منظوری کیلئے بھیجی تھی، صدر مملکت نے وزیراعظم کی ایڈوائس پر 9 اگست کو قومی اسمبلی توڑ دی تھی، انہوں نے اسمبلی آئین کے آرٹیکل 58 (1)کے تحت تحلیل کی جبکہ اسمبلی تحلیل ہونے پر الیکشن کمیشن کو آرٹیکل224 ون کے تحت انتخابات کی تاریخ کا اعلان کرنا ہوتا ہے، آئین کے مطابق مدت پوری ہونے سے قبل اگر اسمبلی توڑی جائے تو عام انتخابات 90 روز میں کرانے ہوتے ہیں۔اب عام انتخابات کی مدت بڑھادی گئی ہے جس کی بنیاد نئی حلقہ بندیاں ہیں۔اس حوالے سے ایک مسئلہ ضرور سر اٹھائے گا نئی حلقہ بندیوں کے بعد صوبوں کو نشستیں زیادہ یا کم ملنے پر ردعمل سامنے آئے گا جسے دور کرنا بھی الیکشن کمیشن کا کام ہے جبکہ شفاف انتخابات کرانا نگراں حکومت کی ذمہ داری ہے، اب دیکھنا یہ ہے کہ آیا چار ماہ کے دوران نئی حلقہ بندیوں کی تشکیل ممکن ہوپائے گی جو کہ مشکل مرحلہ ہے کیونکہ بعض حلقوں کی جانب سے یہ بھی کہاجارہا ہے کہ چار ماہ میں اس عمل کو پورا کرنا مشکل ہوگا، اب الیکشن کمیشن کس طرح پھرتی سے اس عمل کو شفاف طریقے سے یقینی بنائے گی یہ چار ماہ کے اندر واضح ہوجائے گا۔
نئی حلقہ بندیاں، عام انتخابات میں توسیع، ایک نیامسئلہ کھڑاہوگا؟
وقتِ اشاعت : August 18 – 2023