|

وقتِ اشاعت :   August 19 – 2023

فیصل آباد جڑانوالہ سانحہ انتہائی افسوسناک اور دلخراش ہے شرپسندعناصر نے مسیحی برادری کے ساتھ انتہائی نارواسلوک اپنایا مبینہ طور پر توہین مذہب کی آڑ لے کر مشتعل ہجوم نے مسیحی برادری کے گھروں، گرجاگھروں سمیت املاک کو نقصان پہنچایا۔

اسلام دیگر مذاہب کے احترام کا درس دیتا ہے اورکبھی بھی کسی مذہب کے ماننے والوں کو نقصان پہنچانے کی اجازت نہیں دیتا۔

جڑانوالہ واقعے میں ملوث عناصر کو کڑی سزا ضرور ملنی چاہئے،اس واقعے سے ملک کا عالمی سطح پر بہت بُراامیج گیا ہے۔

ملک میں پہلے سے ہی انتہاء پسندتنظیموں کی جانب دہشت گردی کی جارہی ہے جن کامقابلہ ریاست کرتی آرہی ہے اب ریاست کو اپنی رٹ قائم کرنے کے لیے تمام وسائل کو بروئے کارلانا ہوگا خاص کر اس اہم مسئلے پر کسی طرح کی کوتاہی اور غفلت نہیں برتی جائے کیونکہ اقلیتی برادری بھی اس ملک کا حصہ ہیں اور ان کا تحفظ ریاست کی مکمل ذمہ داری ہے اور ان کے ساتھ ہونے والے مظالم پر ایکشن لینا بھی ریاست کی ذمہ داریوں میں شامل ہے۔

بہرحال یہ ایک بہت بڑے منصوبہ بندی کے تحت کیا گیا ہے تاکہ ملک میں انتشار پھیلے، حالات خرابی کی طرف جائیں۔اس سانحہ کے پیچھے چھپے عناصر کو قانون کی گرفت میں ضرورلاکر سخت سزا دینا ہوگا تاکہ دوبارہ کوئی اس طرح کی شرپسندی نہ کرے۔

جڑانوالہ میں جلاؤ گھیراؤ کے واقعے کی ابتدائی رپورٹ تیار کرلی گئی ہے جس کے مطابق 16 گرجا گھروں کو آگ لگائی گئی۔

اسپیشل برانچ کی رپورٹ کے مطابق 70 سے 80 افراد نے احتجاج شروع کیا اور کاروباری مراکز بند کرائے، شہر اور کئی دیہاتوں کی مساجد میں اعلانات کے بعد لوگ جڑانوالہ پہنچے۔

رپورٹ کے مطابق کرسچن کالونی میں مظاہرین نے توڑ پھوڑشروع کی، چرچ اور گھروں کو نذرآتش کیاگیا جبکہ مشتعل مظاہرین نے اسسٹنٹ کمشنر کے گھر کو بھی آگ لگادی، مظاہرین نے عیسیٰ نگری میں 15 گھروں اور 3 گرجا گھروں کو آگ لگائی، پولیس نے مظاہرین پر لاٹھی چارج اور آنسو گیس شیلنگ کی۔

دوسری جانب جڑانوالہ میں توہین مذہب کے مبینہ واقعے کے بعد جلاؤ گھیراؤ میں ملوث گرفتار ملزمان کی تعداد 128 ہوگئی ہے، اعلانات کرکے لوگوں کو اشتعال دلانے والے ملزم کو بھی گرفتار کرلیا گیا ہے۔پولیس کے مطابق جڑانوالہ میں توہین مذہب کے مبینہ واقعے میں مشتعل افراد نے گزشتہ روز گرجا گھروں، مسیحی برادری کے درجنوں مکانات،گاڑیاں اور مال و اسباب جلادیے تھے۔

ویڈیو کی مدد سے اعلانات کرکے لوگوں کو اشتعال دلانے والے ملزم کو گرفتار کرلیا گیا جبکہ ویڈیوز کی مدد سے فسادات میں ملوث مزید ملزمان کی شناخت اور گرفتاریوں کی کوشش جاری ہے۔

واقعے میں ہونے والے نقصانات کا تخمینہ لگانے کے لیے ایڈیشنل کمشنر ریونیو کی سربراہی میں 8 رکنی کمیٹی تشکیل دے دی گئی ہے، کمیٹی املاک اور گھروں کو پہنچنے والے نقصانات کا جائزہ لے کر 3 دن میں رپورٹ پیش کرے گی۔

پنجاب کی نگراں حکومت پر اب بہت بڑی ذمہ داری عائدہوگئی ہے، اسے سیکیورٹی کے تمام تر ذرائع کو استعمال کرکے ان منصوبہ سازوں تک پہنچنا ہوگا جبکہ نگراں وفاقی حکومت کی جانب سے بھی اس سانحہ کی شدید مذمت کی گئی ہے اور عسکری قیادت کی جانب سے بھی واضح پیغام دیاگیا ہے کہ ملوث عناصر کو کسی صورت نہیں چھوڑاجائے گا۔

یقینا شرپسند عناصر سزا کے مرتکب ہیں جن کے ساتھ آہنی ہاتھوں سے نمٹنا بہت ضروری ہے اور اس کے ساتھ مسیحی برادری کے گھروں، گرجاگھروں سمیت املاک کوجو نقصانات پہنچے ہیں ان کی بحالی بھی ہنگامی بنیادوں پر ہونی چاہئے اور آئندہ اس طرح کی شرپسندی کو روکنے کے لیے پیشگی ٹھوس اقدامات اٹھانے ضروری ہیں تاکہ کوئی بھی مذہب کی آڑ لے کر اقلیتی برادری کو ہدف نہ بناسکے۔