|

وقتِ اشاعت :   August 22 – 2023


صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کی جانب سے آفیشل سیکریٹ ایکٹ اور آمی ایکٹ ترمیمی بل پر دستخط نہ کرنے کے بیان کے بعد ملک میں سیاسی بھونچال پیدا ہوگیا ہے اور اس کے ساتھ ہی آئینی اور قانونی مسائل نے بھی جنم لیا ہے۔

دو روز قبل دونوں بلز پر صدر مملکت عارف علوی کی منظوری کے حوالے سے خبر چلی لیکن 48گھنٹے کی خاموشی کے بعد صدر مملکت عارف علوی نے سرکاری سطح کی بجائے سوشل میڈیا پر ذاتی اکاؤنٹ ٹوئٹر کے ذریعے بلز کے متعلق بیان دیا کہ میں نے اپنے عملے کو دونوں بلز واپس کرنے کا کہہ دیا تھا۔

اب اسی جملے کو ہی لیاجائے کہ صدر مملکت اپنے عملے پرمبینہ طور پر الزام لگارہے ہیں کہ بلز پر دستخط اس نے کئے یعنی حیران کن امر یہ ہے کہ اس سے قبل ایوان صدر کو کس طرح چلایاجارہا تھا اس طرح کے بہت سارے سوالات اٹھ رہے ہیں اب یہ محض ایک بیان کی حد تک نہیں رہا ہے بلکہ ایک بہت بڑا مسئلہ بن چکا ہے پوری دنیا اس عمل کو دیکھ رہا ہے یقینا اس کی مکمل تحقیقات ہونی چاہئے ہر سطح پر تاکہ اصل حقائق سامنے آسکیں۔

دوسری جانب صدر مملکت عارف علوی کی تاخیر پر بھی ضرور بات ہونی چاہئے اسمبلیاں تحلیل ہونے کے بعد کیونکر انہوں نے بلز کو مسترد کیا،اور نہ اپنے مشاہدات کا ذکر کیا ہے کہ کس بنیاد پر بلز کو مسترد کیا جس کاکوئی توجواز انہیں پیش کرنا چاہئے تھا۔

بہرحال یہ پہلی بار نہیں ہوا ہے اس سے قبل بھی معذرت کے ساتھ صدر مملکت عارف علوی نے بہت سے معاملات پارلیمان کے لٹکائے رکھے اور یہ تاثر گیا کہ ایوان صدر میں پی ٹی آئی کا ایک کارکن بیٹھا ہے جو کسی اور جگہ سے ڈائریکشن لے رہا ہے۔

صدر مملکت ملک کا سربراہ ہوتا ہے اس کے پاس انتہائی اہم عہدہ ہوتا ہے جو پارٹی سمیت ذات سے بھی بالاتر ہوکر ملکی مفاد میں کام کرتا ہے مگر افسوس جس طرح کارویہ دیکھنے کو ملا اس کی نظیر نہیں ملتی۔

بہرحال گزشتہ دنوں صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کا ٹوئٹر بیان میں کہنا تھاکہ اللہ گواہ ہے، میں نے آفیشل سیکریٹ ایکٹ اور آرمی ایکٹ ترمیمی بل پر دستخط نہیں کیے۔

میں آفیشل سیکریٹ ایکٹ اور آرمی ایکٹ ترمیمی بل سے اتفاق نہیں کرتا، میں نے اپنے عملے کو کہا کہ بل کو بغیر دستخط کے واپس بھیجیں۔صدر پاکستان کا کہناتھاکہ عملے سے کافی بار تصدیق کی کہ بلز بغیر دستخط کے واپس بھیج دیے گئے ہیں، مجھے آج معلوم ہوا کہ میرے عملے نے میری مرضی اور حکم کو مجروح کیا۔

عارف علوی نے کہا کہ اللہ سب جانتا ہے، میں ان سب سے معافی مانگتا ہوں جو ان بلز سے متاثر ہوں گے، میں نے ان بلز پر دستخط نہیں کیے۔

واضح رہے کہ گزشتہ روز یہ خبر سامنے آئی تھی کہ صدر عارف علوی نے آفیشل سیکریٹ ایکٹ اور آرمی ایکٹ ترمیمی بل پر دستخط کر دئیے ہیں جس کے بعد دونوں بلز قوانین بن گئے ہیں۔

اب صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کی جانب سے ایک اور فیصلہ سامنے آیا ہے جس میں انہوں نے اپنے سیکرٹری وقار احمد کی خدمات واپس کردیں۔صدر مملکت کے سیکرٹریٹ نے وزیراعظم کے پرنسپل سیکرٹری کو اس حوالے سے خط بھیج دیا ہے۔

ایوان صدر سے وزیراعظم آفس کو بھیجے گئے خط میں لکھا گیا ہے کہ وقار احمد کی خدمات کی مزید ضرورت نہیں، ان کی خدمات اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کو واپس کی جاتی ہیں۔

البتہ معاملہ اب یہاں رکنے والا نہیں ہے یقینا اس کی شفاف تحقیقات ہی تمام تر حقائق کو سامنے لائے گا فی الوقت ملک کے اندر ایک نئی قانونی اور آئینی معاملہ اٹھ گیا ہے اور بہت سارے سوالات صدر مملکت سے جواب طلب ہیں جن کا وضاحت انہیں اس بنیاد پر دینا ہوگا کہ اتنی تاخیر کے بعد کیونکر انہوں نے سوشل میڈیا کا سہارا لیا، وہ چاہتے تو دس دن کے اندر اعتراض لگاکر بلز بھیج دیتے لیکن ایسا کیوں نہیں کیا گیا؟