|

وقتِ اشاعت :   August 27 – 2023

کوئٹہ: بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ سابق وزیراعلیٰ بلوچستان سرداراخترجان مینگل نے کہاہے کہ بڑے عہدوں پر بلوچستانیوں کے آنے سے احساس محرومی ختم نہیں ہوگی،

لاپتہ افرادکی بازیابی،سیاست میں عدم مداخلت مسائل کا حل ہے پی ٹی آئی کیساتھ معاہدے پر نیک نیتی محسوس نہ ہونے پر الگ ہوئے شہبازشریف کی حکومت کی حمایت کے بعد2022ء میں نوازشریف کو بلوچستان کے مسائل پر خط لکھا لیکن کوئی خاطرخواہ نتیجہ نہیں نکل سکا بلوچستان کے مسئلے پر پارلیمانی کمیشن تشکیل دیاجائے جوحالات کابغورجائزہ لیں،ان خیالات کااظہار انہوں نے نجی ٹی وی سے بات چیت کرتے ہوئے کیا۔

سرداراخترجان مینگل نے کہاکہ مجھے نہیں لگتا کہ بڑے عہدوں پر بلوچستان کے لوگوں کے آنے یا جانے سے احساس محرومی ختم ہوگی کیونکہ بلوچستان کی احساس محرومی اس مائنڈ سیٹ سے وابستہ ہے جو 1947سے لیکر آج تک قائم ہے کیا۔

اس مائنڈ سیٹ میں تبدیلی آئی ہے؟چہروں کے بدلنے سے اوریہاں پر عوامی مینڈیٹ لیکر ہم تسلیم کرسکتے ہیں کہ حقیقتاََ جمہوریت آئی ہے،

عدالتوں میں سپریم کورٹ سے لیکر لور کورٹ تک جو ججز صاحبان آئے ہیں کیا ہم کہہ سکتے ہیں کہ عدالتیں آزاد ہوئی ہے،اینکرز ٹاک شوز میں گھنٹوں کے پروگرام کرتے ہیں تو کیا ہم یہ سوچے کہ میڈیاآزاد ہے؟

اگر ان کے آنے سے بلوچستان کی احساس محرومی ختم ہوگی توپھر میڈیا،

عدالتیں آزاد ہیں جمہوریت پل پھول رہی ہے،انہوں نے کہاکہ جب پاکستان تحریک انصاف کے ساتھ معاہدہ ہواتھا اس کے تحت پی ٹی آئی کوسپورٹ کیا،وزیراعظم،صدر،اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر تک ووٹ دئیے جب معاہدے پر عمل نہیں ہوا،

اور ہم نے محسوس کیاکہ نیک نیتی نظر نہیں آرہی ہے 47والا مائنڈ سیٹ چلا آرہاہے تو ہم نے خیرا ٓباد کیا،جب شہبازشریف کی حکومت بنی تھی تو ہم نے حکومت سازی تک ساتھ دیا حتی الوسع کوشش کی کہ ہر اجلاس میں یقین دہانی کراتے رہے اور تسلیاں دیتے رہے،

انہوں نے کبھی انکار نہیں کیا کمیٹیاں بنتی رہیں مذاکرات ہوتے رہے لیکن کوئی آؤٹ فٹ نہ نکلا،نوازشریف کو2022ء میں ایک خط بھی لکھا تھا تمام مسائل حل کی یقین دہانی ہوئی لیکن اس کا کوئی نتیجہ نہیں نکل سکا۔

انہوں نے کہاکہ جب تک بلوچستان کے سیاسی معاملات میں اداروں کی مداخلت بند نہیں کی جاتی لوگوں کویہ اختیاردیاجائے کہ وہ اپنے نمائندگان کو خود چھینیں،پی ٹی آئی کی طرف سے جو لفظ آیاسلیکٹڈ نیشنل عوامی پارٹی کے وقت یہ لفظ زیادہ استعمال ہواتھا،

عوام کے حقیقی نمائندوں کو موقع دیاجائے،

لاپتہ افراد کااہم مسئلہ ہے جو دو دہائیوں سے چلا آرہاہے جس میں بتدریج اضافہ ہورہاہے،

بازیابی کے دعوے کرنے والوں کی حکومت میں تعداد بڑھ گئی،

بلوچستان کی معاشی بدحالی،

صنعتوں کا نہ ہونا،بلوچستان کاایک بڑا ٹریڈ بارڈر ٹریڈ ہے جبکہ صنعتی علاقہ حب ہے،

جہاں زیادہ لوگ کراچی کا ہے جب تک معاشی ترقی نہ ہو سیاسی معاملات میں مداخلت بند نہ ہوں تو مسائل حل نہیں ہونگے،نگران حکومت کو حکومت نہیں سمجھتا،

مسائل کے حل میں اسٹیبلشمنٹ کی اہم ذمہ داری ہے،

ریاستی اداروں کو ملک کو بچانے کیلئے کڑوے گھونٹ پینے ہونگے،

پہاڑوں پر بیٹھے لوگوں کے ساتھ بات کرناہوگی،

باہر بیٹھے لوگ کس وجہ سے ناراض ہے؟

ناراض بلوچوں کے بنیادی حقوق سے انکار کی وجہ سے وہ ناراض ہے آواز اٹھانے والوں کو بھی بندوق اٹھانے والوں کی طرح مارا جاتاہے،

انہوں نے کہاکہ نان اسٹیٹ ایکٹرز اور بلوچستان کے لوگوں میں فرق ہے،

مذہبی انتہاپسندوں کے پیچھے کس کاہاتھ تھا اس نہج پر حالات تک پہنچانے والوں کے خلاف کوئی کارروائی ہوئی؟ اندرونی ہو یا بیرونی ان کے خلاف کارروائی ہوئی؟

بلوچستان کی بات کی جائے تو وہ حقیقت ہے صوبے کے اندر ہوں یا باہر طالبان کے ساتھ بیٹھ کر مسائل حل کئے جارہے ہیں۔

تو بلوچستانیوں کے ساتھ بیٹھنے میں کیا ہرج ہے؟

اگر کوئی کسی بھی جرم میں ملوث ہے میں نہیں کہتاکہ وہ سو فیصد صاف ستھرے ہونگے پھر عدالتیں کس لئے بنی ہیں اگر وہ قصور وار ہیں توانہیں عدالتوں میں پیش کئے جائیں اور اگر بے گناہ ہے توچھوڑ دیاجائے۔

انہوں نے کہاکہ مذاکرات کاایک دور چلا تھا2014-15ء میں ڈاکٹرمالک بلوچ کی حکومت تھی اختیارات دئیے گئے تھے مذاکرات کسی حد تک کامیاب ہوئے بات جب یہاں پر آئی تو اسٹیبلشمنٹ نے بات ماننے سے انکار کیامذاکرات کرنے والے کو مکمل اختیارات دئیے جائیں پارلیمانی کمیشن بنایاجائے جوبغور جائزہ لیں۔