مسلم لیگ ن کے سربراہ میاں محمد نواز شریف کی وطن واپسی کے حوالے سے پارٹی قیادت میں واضح تاریخ پر اتفاق نہیں ہوا ہے تاہم یہ ضرورکہا جاتا ہے کہ عام انتخابات سے قبل میاں محمد نواز شریف وطن واپس آئینگے اور الیکشن مہم کی قیادت کرینگے۔
ن لیگی قیادت اس بات پر یقین رکھتی ہے کہ پنجاب میں میاں محمد نواز شریف ایک مقبول لیڈر ہیں یہ دعویٰ متعدد بار پارٹی قیادت کرتی آرہی ہے اور اس بات پر بھی پارٹی قیادت خوش فہمی میں مبتلا ہے کہ نواز شریف کی قیادت میں نہ صرف اکثریتی نشست لیکر کامیاب ہونگے بلکہ حکومت بھی ن لیگ بنائے گی۔ بہرحال اس بات کو ذہن نشین کرنا ضروری ہے کہ پی ٹی آئی حکومت کے خاتمے کے بعد ن لیگ کے میاں محمد شہباز شریف وزیراعظم منتخب ہوئے اور شہباز شریف کے فیصلوں میں نواز شریف کی مکمل رضا مندی اور مشاورت شامل رہی ہے۔
آج ملکی معیشت کی تنزلی کی وجہ سے عوام مہنگائی سمیت دیگر بحرانات کا سامنا کررہی ہے اس میں اگر پی ٹی آئی کے ساڑھے تین کی بیڈ گورننس شامل ہے تو ڈیڑھ سال کے دوران پی ڈی ایم اور اس کے اتحادیوں نے بھی کوئی خاص مہارت نہیں دکھائی۔
آئی ایم ایف سے ڈیل ضرور کامیاب ہوئی مگر شہباز شریف کی قیادت میں نہ مہنگائی میں کمی آئی اور نہ ہی عوام کی زندگیوں میں خوشحالی آئی۔
اس تمام صورتحال کا عوامی رائے عامہ پر اثر ضرور پڑے گا،ن لیگ کو پنجاب سمیت دیگر صوبوں میں بہت سارے چیلنجز کا سامنا کرنا پڑے گا چاہے قیادت نواز شریف خود ہی کیوں نہ کریں کیونکہ نواز شریف جب نکالے گئے تو اس وقت رائے عامہ کچھ اور تھی جب شہباز شریف وزیراعظم منتخب ہوئے تو رائے عامہ موجودہ تناظر میں کچھ اور بن چکی ہے۔
گزشتہ روز سابق وزیر اعظم شہباز شریف نے مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف کی وطن واپسی کی تاریخ کا اعلان کر دیا۔
لندن میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے شہباز شریف نے کہا کہ اقامہ کیس کا فیصلہ بدنیتی پر مبنی تھا، میاں نواز شریف اکتوبر میں واپس پاکستان جائیں گے۔شہباز شریف نے کہا کہ پانامہ میں نوازشریف کا دور دور تک نام نہیں تھا، نوازشریف کو سازش کے تحت پانامہ کیس میں ملوث کیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ آئین کی روح کے مطابق اسمبلی کو تحلیل کیا، چیف الیکشن کمشنر نے الیکشن کرانے ہیں۔ بہرحال اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ نواز شریف کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ غلط اور بدنیتی کی بنیاد پر ہوا۔
اگر ن لیگ پی ٹی آئی حکومت کے فوری خاتمے کے بعد عام انتخابات کی طرف جانے کا فیصلہ کرتی اور حکومت نہ بناتی تو شاید ن لیگی قیادت کا یہ دعویٰ کسی حد ہضم بھی کیا جاسکتا تھاکہ ن لیگ مضبوط پوزیشن میں ہے اور نواز شریف کے ساتھ نا انصافی پر مبنی بیانیہ کے ذریعے عام انتخابات میں بھاری اکثریت لینے میں کامیاب ہونے کے امکانات موجود رہتے مگر اب پنجاب جہاں نئی جماعت سامنے آگئی ہے وہیں دوسری بڑی جماعتیں بھی معرکہ لڑنے کے لئے بھرپور تیاریاں کررہی ہیں۔