|

وقتِ اشاعت :   August 29 – 2023

ملک بھر میں بجلی کے بھاری بلوں کے خلاف شہری سراپااحتجاج بن گئے ہیں بلوں کو جلارہے ہیں، بجلی کاٹنے والے عملے کی دھلائی ہورہی ہے، بجلی سپلائی کرنے والی کمپنیوں کے خلاف شدید نعرے بازی کی جارہی ہے جبکہ واپڈا دفاتر کے سامنے دھرنے اور احتجاجی مظاہرے طول پکڑ رہے ہیں۔

تاجروں، سیاسی اورمذہبی جماعتوں نے مزید احتجاج اور ہڑتال کا اعلان کیا ہے۔

یہ نوبت یہاں تک ایک ہی دن میں نہیں پہنچی بلکہ غلط معاشی پالیسیاںاور سیاسی عدم استحکام اس کی بڑی وجہ ہیں۔بدقسمتی سے 1991ء سے لے کر 2022ء تک سیاسی انجینئرنگ نے ملک کو بہت نقصان پہنچایا جس کا براہ راست اثر ہماری معیشت پرپڑا ۔

آئی ایم ایف کے شرائط ماننا اب مجبوری ہے۔

مرکزکی نگراں حکومت اس میں کیا کرسکتی ہے اپنے محدود اختیارات میں رہتے ہوئے ریلیف کے حوالے سے نگراں وزیراعظم انوارالحق کاکڑ مسلسل اجلاس کررہے ہیں اب دیکھتے ہیں اس حوالے سے کیا فیصلہ سامنے آئے گا مگر مسئلے کا مستقل حل سیاسی استحکام ہی سے ممکن ہے اور معیشت کی پالیسیوں کا روڈ میپ واضح ہونا چاہئے اور اسے تسلسل کے ساتھ چلنا چاہئے ۔

سیاستدان سیاست کریں اور معیشت کی بہتری کے لیے پالیسی بنائیں بجائے سیاسی انتقامی کارروائیوں ، سیاسی انجینئرنگ اس سے مکمل گریز کیاجائے۔ ماضی کے غلط تجربات کا خمیازہ اب سامنے آرہا ہے جو عوامی ردعمل کی صورت میں سب کے سامنے ہے۔

بہرحال گزشتہ روزحکام پاور ڈویژن نے بجلی کے بلوں میں لگنے والے ٹیکسز کی تفصیلات سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے پاور کو بتا دیں۔

سینیٹر سیف اللہ ابڑو کی زیر صدارت سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے پاور کا اجلاس ہوا جس میں وزارت پاور ڈویژن کے حکام بھی شریک ہوئے۔

چیئرمین کمیٹی سیف اللہ ابڑو نے پوچھا کہ بجلی کی قیمت کیوں بڑھی وجہ بتائیں۔

جوائنٹ سیکرٹری پاور فنانس محفوظ بھٹی نے بتایا کہ گزشتہ مالی سال کیپیسٹی پیمنٹس 1300 ارب روپے رہی جبکہ رواں مالی سال پاور سیکٹر کی کیپیسٹی پیمنٹس میں 2000 ارب روپے کا تخمینہ ہے۔

حکام سینٹرل پاور پرچیزنگ ایجنسی (سی سی پی اے) نے سینیٹ کمیٹی کوبتایا کہ کیپیسٹی پیمنٹ میں ساڑھے 500 ارب روپے کا اضافہ تو ڈالر اور روپے کے شرح تبادلہ کے باعث ہے۔

سیف اللہ ابڑو نے پوچھا کہ اگر آئی پی پیز سے معاہدے ڈالر میں نہ ہوتے تو بجلی مہنگی نہ ہوتی جبکہ سینیٹر بہرہ مند تنگی نے استفسار کیا کیا جب کبھی ڈالر نیچے آیا تو بجلی کم کی۔

پاور ڈویژن حکام نے بتایا کہ یہ سہ ماہی ایڈجسٹمنٹ میں دیا جاتا ہے، جس پر سینیٹر بہرہ مند تنگی نے کہا کہ یہ باتیں نہ کریں، دکھائیں کہاں ہے۔سینیٹر سیف اللہ نیازی نے کہا کہ مختلف آئی پی پیز کے معاہدوں کے ختم ہونے کے مختلف ٹائم ہیں

جس پر حکام پاور ڈویژن نے بتایا کہ 1994کے آئی پی پیز معاہدے 2027 میں ختم ہوں گے۔سیف اللہ نیازی نے پوچھا کہ یہ آئی پی پیز کے معاہدوں سے کب جان چھوٹے گی؟ جبکہ سینیٹر بہرہ مند تنگی کا کہنا تھا لوگ بل جلا رہے ہیں، کون ذمہ دار ہے، خیبر سے کراچی تک احتجاج ہو رہا ہے، صورتحال خراب ہے اور سول نافرمانی کی طرف جا رہی ہے، ملک کمزور ہو رہا ہے، کون اس کا ذمہ دار ہے۔

سینیٹر فدا محمد نے پوچھا کہ بجلی بل پر کتنے ٹیکسز ہیں جس پر حکام پاور ڈویژن نے بتایا کہ مختلف قسم کے ٹیکس ہیں، بلوں پر 7 قسم کے ٹیکس ہیں جن میں جی ایس ٹی، انکم ٹیکس اور ود ہولڈنگ ٹیکس سمیت دیگر ٹیکسز شامل ہیں۔

چیئرمین کمیٹی سیف اللہ ابڑو نے کہا کہ پاور ڈویژن کے حکام ہمارے سوالوں کے جواب نہیں دے پا رہے

، پاور ڈویژن نے کل وزیراعظم کو بجلی پر کیا بتایا ہو گا، آئی پی پیز کے منافع کو کم کریں بجلی کی قیمت کم ہو جائے گی، آئی پی پیز کو کیپسٹی پیمنٹس بند کریں۔سینیٹر سیف اللہ نیازی نے کہا کہ صرف اس بجلی کی قیمت دیں جو بجلی لیتے ہیں جبکہ سینیٹر سیف اللہ ابڑو کا کہنا تھا اگر کیپیسٹی پیمنٹس بند نہ ہوئی تو تباہی ہے، آئی پی پیز کو کوئی بھوت نہ سمجھا جائے، بجلی کی قیمت کم کریں ہمارے بچوں کے مستقبل کا مسئلہ ہے۔یہ احوال مکمل عوام کے سامنے لانا ضروری ہے تاکہ شہری باخبر رہیں کہ ان پر کیاٹیکسز لاگو ہیں

مگر اچھے حالات میں بھی بجلی سپلائی کرنے والی کمپنیوں کا رویہ ہمیشہ غیر مناسب رہا ہے اب ان کے ساتھ جوہورہا ہے یہ ان کی اپنی پالیسیوں کا نتیجہ ہے۔ بے شک تشدد غلط عمل ہے اس سے عوام کو گریز کرنا چاہئے پُرامن طریقے سے اپنااحتجاج ریکارڈ کرائیں مگر اب وقت آگیا ہے کہ مخصوص طبقہ سے اضافی مراعات واپس لئے جائیں اور عوام کو فوری ریلیف کا بندوبست کیاجائے تاکہ عوام پر مہنگائی کا بوجھ کم ہونے کے ساتھ انہیں مستقل بجلی کی فراہمی یقینی بنائی جاسکے۔