|

وقتِ اشاعت :   September 8 – 2023

کوئٹہ: پاکستان بار کونسل کے ممبر منیر احمد خان کاکڑ ایڈووکیٹ نے پنجاب کے نگران حکومت کی جانب سے لاہور ہائی کورٹ کے 11ججز کو37کروڑ روپے زیرو پرسنٹ انٹرسٹ پر اور 12 سال کے لیے قرض دینے کے عمل کو غیرآئینی وغیر قانونی قراردیتے ہوئے کہاہے کہ پاکستان بار کونسل ،سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن سمیت دیگر وکلا تنظیموں کو چاہیے کہ ان ججز کے خلاف ریفرنس داخل کرے  ۔

ٹیکس دینے والے عام لوگ15فیصد انٹرسٹ پر خودکشی پر مجبور ہوتے ہیں۔

لیکن ججز وجرنیلوں کو صفر فیصد پرقرض کس قانون کے تحت دیاگیاہے ۔ان خیالات کااظہار انہوں نے اپنے جاری کردہ بیان میں کیا۔ منیر احمد کاکڑ ایڈووکیٹ نے کہاکہ گزشتہ دنوں پنجاب کی نگران حکومت نے ہائی کورٹ کے گیارہ ججز کو 37 کڑور روپے سے زائد قرضوں کی منظوری دی گئی تھی جس کے تحت ہائی کورٹ کے ججز کو دئیے جانے والے قرضے بلاسود ہوں گے۔

ججز 12 سال کی مدت میں بغیر ایک روپیہ سود ادا کئے یہ قرضے واپس کریں گے، ہائی کورٹ کے 11 ججز کو 3 سال کی 36 بنیادی تنخواہوں کے برابر قرض دیا گیا ۔

جو سوا تین کروڑ روپے پر ایوریج بنتی ہے،انہوں نے کہاکہ پنجاب کے نگران حکومت کا یہ اقدام خلاف قانون ہے ،وہ ججز جو لاکھوں روپے تنخواہیں وصول کرتے ہیں انہیں صفر فیصد انٹرسٹ کے ساتھ 37کروڑ روپے کی ادائیگی کس قانون کے تحت ہورہی ہے ،پاکستان میں لاکھوں عوام جو کروڑوں روپے ٹیکس کی ادائیگی کرتے ہیں۔

ان پر انٹرسٹ لاگو ہے لیکن یہاں انٹرسٹ کی شرح صفر ہے یہ کونساقانون ہے ،انہوں نے کہاکہ یہ معاملہ مس کنڈکٹ کاہے پاکستان بار کونسل،سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن سمیت دیگر وکلا تنظیموں کو چاہیے کہ وہ ان ججز کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس داخل کرے کیونکہ ان کے آئندہ وقتوں میں فیصلے میرٹ کے بر خلاف ہونگے ۔انہوں نے کہاکہ اگر شرعی حوالے سے دیکھاجائے توبھی یہ معاملہ غلط ہے ،انہوں نے کہاکہ بحیثیت وکلا نمائندہ تنظیم تمام وکلا باڈیز کو اس پر سخت ردعمل دینے کی ضرورت ہے ۔