بلوچستان کے سرحدی علاقوں کا ذریعہ معاش ایران اور افغانستان سے وابستہ ہے، کئی دہائیوں سے سرحدی علاقوں کے لوگ ایرانی اور افغانستان کی مصنوعات کی تجارت کرتے ہیں۔ ایران سے پیٹرولیم مصنوعات بھی اس میں شامل ہیں ملک میں جب معاشی خوشحالی تھی تب بھی ایرانی سرحد سے پیٹرولیم مصنوعات سمیت ایرانی اجناس کاکاروبار ہوتا رہا ہے۔
بہرحال حالیہ معاشی بحران میں اسمگلروں کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کردیاگیا ہے جو کہ خوش آئند اقدام ہے۔
مگر ایران کے سرحدی علاقوں کے لیے کسی نہ کسی طرح سے کچھ رعایت نکالنا ضروری ہے کیونکہ ان علاقوں میں روزگار کے دیگر مواقع موجود نہیں ہیں، اگرپاک ایران پیٹرولیم مصنوعات کی تجارت کو قانونی جواز مل جائے تو یہ ملک کے وسیع ترمفاد میں ہوگا جس طرح سے ایران سے مکران ڈویژن کو بجلی فراہم کی جارہی ہے اس سے سرحدی علاقے مستفید ہورہے ہیں ۔
اسی طرح قانونی طریقے سے معاہدے ملکی سطح پر کئے جائیں تو اسمگلنگ کی حوصلہ شکنی ہوگی جبکہ معاشی صورتحال بھی بہتر ہوگی۔ بہرحال حساس ادارے کی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ ایرانی تیل کے کاروبار میں 29 سیاستدان بھی ملوث ہیں۔سول حساس ادارے نے اسمگلنگ پر رپورٹ وزیراعظم ہاؤس میں جمع کرا دی جس میں یہ انکشاف بھی کیا گیا ہے۔
کہ تیل کی اسمگلنگ سے ہونے والی آمدنی دہشت گرد بھی استعمال کرتے ہیں۔رپورٹ کے مطابق ایران سے پاکستان کو سالانہ 2 ارب 81 کروڑ لیٹر سے زیادہ تیل اسمگل ہوتا ہے، ایرانی تیل کی اسمگلنگ کے باعث پاکستان کو سالانہ 60 ارب روپے سے زیادہ کا نقصان ہو رہا ہے۔سول حساس ادارے کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے۔
کہ ملک بھر میں 995 پمپ ایرانی تیل کی فروخت کا کاروبار کرتے ہیں، ایرانی تیل کی اسمگلنگ میں 90 سرکاری حکام بھی ملوث ہیں اور 29 سیاستدان ایرانی تیل کی اسمگلنگ کا کاروبار کر رہے ہیں۔
رپورٹ میں یہ انکشاف بھی ہوا ہے کہ پاکستان اسٹیٹ آئل (پی ایس او) کی گاڑیاں بھی ایرانی تیل کی ٹرانسپورٹیشن میں ملوث ہوتی ہیں، ایران سے تیل ایرانی گاڑیوں میں اسمگل ہو کر پاکستان آتا ہے، تیل اسمگل کرنے والی ایرانی گاڑیوں کو زم یاد کہا جاتا ہے۔
حساس ادارے کی رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ پاکستان میں 722 کرنسی ڈیلر حوالہ ہنڈی کے کاروبارمیں ملوث ہیں، سب سے زیادہ 205 ڈیلر پنجاب، خیبرپختونخوا میں 183، سندھ میں 176، بلوچستان میں 104، آزاد کشمیر میں 37 اور اسلام آباد میں 17 ڈیلرز حوالہ ہنڈی کا کاروبار کر رہے ہیں۔واضح رہے کہ نگران وفاقی حکومت نے صوبائی حکومتوں کے ساتھ مل کر ملک بھر میں بڑے پیمانے پر ڈالر اور دیگر اشیا کی ذخیرہ اندوزی میں ملوث افراد کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کر رکھا ہے۔
بہرحال کسی بھی غیر قانونی عمل کی حوصلہ شکنی لازمی ہے غیر قانونی طریقے سے کاروبار کی اجازت کسی بھی جمہوری ملک میں نہیں ہوتی بلکہ پڑوسی ممالک کے ساتھ تجارتی معاہدے ہوتے ہیں اور اسی بنیاد پر کاروبار کو فروغ دیا جاتا ہے۔
بلوچستان کے تاجر اور عوام سمیت سیاسی جماعتیں بھی یہی مطالبہ کرتی آئی ہیں کہ ایران اور افغانستان کے ساتھ تجارت کو ملکی سطح پر قانون کے مطابق کیا جائے تاکہ اسمگلنگ کی حوصلہ شکنی ہو۔ اب جو انکشافات اسمگلنگ کے حوالے سے سامنے آئی ہیں جس میں سرکاری آفیسران سے لے کر کمپنیاں تک ملوث ہیں تو اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ کون کون اپنے ہاتھ ملکی معاشی بحران کے دوران صاف کرکے پیسے بنارہا ہے ان کے خلاف سخت کارروائی عمل میں لانا ضروری ہے
غریب عوام کے لیے معاشی آسودگی حکومت کی ذمہ داری ہے۔ امید ہے کہ بلوچستان کے سرحدی علاقوں کے تاجر اور عوام کے معاشی مسائل حل کرنے کے حوالے سے بھی اقدامات اٹھائے جائینگے تاکہ ان کے گھر کے چولہے ٹھنڈے نہ پڑ جائیں۔