پنجگور ٹیچنگ اسپتال کے ایم ایس ڈاکٹر انور عزیز نے گزشتہ روز اپنے ہی اسپتال کے بارے میں بہت ساری مبہم باتیں کیں۔
ایک طرف وسائل کی کمی کا رونارویا کہ ادویات اور سرنج جیسے معمولی آلات بھی اسپتال میں دستیاب نہیں بقول ایم ایس ڈاکٹر انورعزیز کہ محدود وسائل میں رہتے ہوئے ہم کام کررہے ہیں اوردوسری طرف اسپتال کی تعریفوں کے پُل بھی باندھ کربتایا کہ آپریشن کیسز روزانہ کی بنیاد پر کیے جار ہے ہیں، سرجن موجود ہے چوبیس گھنٹے سروس فراہم کی جارہی ہے ۔
یہ تمام روئیداد ایم ایس صاحب نے سابق وزیر صحت اور نیشنل پارٹی کے رہنماء میررحمت صالح بلوچ کے اسپتال کے دورہ کے دوران بیان کی۔ ایم ایس ڈاکٹر انور عزیز نے اسپتال کو چلانے کے لیے عوام سمیت سیاسی وسماجی شخصیات سے مالی اور اخلاقی تعاون کا مطالبہ بھی کیا ۔
حقیقت یہ ہے کہ پنجگور ٹیچنگ اسپتال کے ایم ایس ڈاکٹر انور عزیز کی باتوں میں کنفیوژن بہت زیادہ ہے وہ کھل کر کوئی بات واضح نہیں کررہے ، حیران کن بات یہ ہے کہ جس صوبے کے گزشتہ دو ادوارحکومت میں سب سے زیادہ رقم بجٹ میں محکمہ صحت کی بہتری کے لیے رکھی گئی تاکہ بلوچستان کے تمام اضلاع کے صحت کے مراکز میںمسائل حل ہوسکیں۔
بہرحال پنجگور ٹیچنگ اسپتال کے ایم ایس ڈاکٹر انور عزیز کے مکمل بیان کے متن کو غور سے پڑھاجائے کہ وہ بتانا کیا چاہتے ہیں اور کرنا کیا چاہتے ہیں۔ا
یم ایس پنجگور ٹیچنگ اسپتال کے مطابق پنجگور ٹیچنگ ہسپتال میں ڈاکٹروں کی کمی کی وجہ سے شدید مشکلات کا سامنا ہے ،جان بچانے والی ادویات کا بھی فقدان ہے۔
جبکہ سرنج تک بھی ہمارے پاس دستیاب نہیں ہے اسکے باوجودمحدود وسائل میں رہ کر عوام کو طبی سہولتوں کی فراہمی میں ہر ممکن اقدامات کررہے ہیں اور ٹیچنگ اسپتال میں روزانہ کی بنیاد پر آپریشن بھی ہورہے ہیں عوام اور مخیر حضرات سمیت سیاسی وسماجی شخصیات کا فرض بنتا ہے ۔
کہ وہ اسپتال کے ساتھ مالی اور اخلاقی تعاون کریں تاکہ ہم سب مل کر غریب اور نادار لوگوں کی مشکلات میں کمی لاسکیں ۔ ایم ایس نے کہا کہ دستیاب وسائل کے ہمراہ عوام کو ہر ممکن طبی سہولیات فراہم کررہے ہیں اورہسپتال میں سرجن ڈاکٹر سائرہ بتول روزانہ کی بنیاد پر مریضوں کا آپریشن کرتے ہیں تاہم وسائل اور اسٹاف کی کمی مشکلات پیدا کررہی ہیں ۔انہوں نے کہا کہ اس وقت ٹیچنگ اسپتال میں میڈیکل آفیسرز کی درجنوں آسامیاں خالی ہیں۔
جو اسٹاف موجود ہے وہ صبح کے اوقات او پی ڈیز چلاتے ہیں ایکسرے کا سی آر اور ڈی آر کا جدید سسٹم موجود ہے۔
انکے انسٹالیشن کا مسئلہ ہے جس سے وہ کارآمد نہیں بن رہے ہیں اگر ایکسرے سسٹم انسٹال ہوجائیں تو شہریوں کا ایک بڑا مسئلہ حل ہوسکتا ہے،ٹیچنگ اسپتال میں ڈینٹل سیکشن بھی جدید اور بہترین ہے شہری اس سے روزانہ کی بنیاد پر استفادہ کررہے ہیں کوئٹہ کے بعد یہ دوسرا بڑا جدید سیکشن ہے ،سرجری اور گائنی کے شعبہ جات بھی کام کررہے ہیں ۔
،لیڈی ڈاکٹرز گائنی میں خدمات سرانجام دے رہی ہیں ، ایمرجنسی آپریشن کے لیے ہمارا سرجری ٹیم 24 گھنٹے الرٹ ہے اسپتال میں گائنالوجسٹ کا ہونا انتہائی لازمی ہے اس موقع پر سابق صوبائی وزیر صحت میر رحمت صالح نے کہا کہ جن وسائل کے ساتھ اسپتال کا ایڈمنسٹریشن کام کررہا ہے وہ یقینا قابل تعریف ہے، میں نے اپنے ٹائم پیریڈ میں اسپتال کی حالت بہتر بنانے ۔
اور دیگر چھوٹے بڑے اسپتالوں پر توجہ دیا۔ بہرحال حقیقت تو یہ ہے کہ سابق حکومت کے دور میں ہیلتھ کے شعبے کو تباہی کی طرف دھکیلا گیا۔
آج جن حالات سے ہم گزررہے ہیں یہ انہی ناقص پالیسیوں کا نتیجہ ہے۔ میررحمت صالح بلوچ نے ایم ایس ٹیچنگ ہسپتال پنجگور ڈاکٹر انور عزیز کو اسپتال کے لئے لاکھوں روپے مالیت کی ادویات اور دیگر طبی سامان بھی حوالے کیا ۔ اب یقینا یہاں یہ سوال ضرور اٹھتا ہے کہ سابقہ حکومتوں کے فنڈز اسپتال کے لیے کہاں اور کس کی جیب میں گئے .
س کا جواب کون دے گا تحقیقاتی اداروں کو چاہئے کہ بلوچستان کے اسپتالوں کو ملنے والے فنڈز جو بجٹ میں رکھے گئے تھے ان کی شفاف تحقیقات کی جائیں ،بلوچستان کے غریب عوام کے ٹیکس کے پیسے کہاں غائب ہوئے ہیں اس کا احتساب ضرورہونا چاہئے ۔
یہ المیہ ہے کہ ایک سیاسی جماعت کا رکن اور سابق وزیر اپنی ذات سے سرکاری اسپتال کو ادویات ودیگر چیزیں فراہم کررہا ہے تو حکومتوں کی کارکردگی کیا رہی ہے سرکاری اسپتالوں کو چلانا ریاست کا کام ہے شخصیات کا نہیں ۔بہرحال انکوائری کرکے تمام اسپتالوں کا دورہ بھی کیاجائے۔
کہ وہاں کیاصورتحال ہے ایک جامع رپورٹ مرتب کرکے موجودہ نگراں حکومت سامنے لائے تاکہ حقائق عوام تک پہنچ سکیں اور اسپتالوں کی رقم خردبرد کرنے والوں کاکڑا احتساب ضرور ہونا چاہئے تاکہ کوئی اور ایم ایس عام لوگوں ، سیاسی وسماجی تنظیموں سے مالی تعاون کا تقاضا نہ کرے جولمحہ فکریہ ہے۔