|

وقتِ اشاعت :   September 27 – 2023

پاکستان میںجعلی ادویات کی فروخت ایک سنگین مسئلہ ہے جو انسانی جانوں کے لیے انتہائی خطرناک اور جان لیواثابت ہورہا ہے۔

ملک کے بیشتر میڈیکل اسٹورز میں موجود ادویات کو چیک نہیں کیاجاتا، ڈرگ کنٹرول اتھارٹی مکمل طور پر غیر فعال ہے۔

جب کوئی سانحہ رونما ہوتا ہے تب سب جاگ جاتے ہیں اور فوری ایکشن لیتے ہوئے کارروائیاں شروع ہوجاتی ہیں مگر وہ بھی وقتی طور پر ہوتا ہے ۔

بہرحال یہ ایک سنگین مسئلہ ہے جس پر نگراں وفاقی حکومت کو لازمی کارروائی کرنی چاہئے جب تک عام انتخابات نہیں ہوتے اور نئی حکومت نہیں آتی۔

گزشتہ دنوں پنجاب میں جعلی انجکشن کے باعث 68افراد بینائی سے محروم ہوچکے ہیں غریب عوام اس مہنگائی کے دور میںایسے مافیا ئوںکے ہتھے چڑھ چکی ہے جن کا انسانی اقدار سے کوئی تعلق نہیں، صرف رقم بٹورنا،جائیدادیں بنانا ہی ان کی زندگی کا اولین مقصد ہے ۔

،ان کا مستقبل بھی پاکستان میں نہیں بلکہ بیرون ملک یہ اپنے پورے خاندان کے ساتھ منتقل ہوجاتے ہیں اور پاکستان صرف ان کے لیے ایک پیسہ کمانے کا کارخانہ ہے ، یہ غیر قانونی طریقے سے مسلسل وارداتیں کرتے آرہے ہیں۔ بہرحال پنجاب میں مخصوص انجیکشن سے بینائی کھوجانے کے معاملے کے مرکزی ملزم کو گرفتار کرلیا گیا ہے۔

پنجاب حکومت کے ذرائع کے مطابق انجیکشن اسکینڈل کے مرکزی ملزم کو فیصل آباد سے گرفتار کیا گیا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ ملزم انجیکشن کو لاہور سے باہر سپلائی کرتا تھا اور واقعے کے بعد یہ کئی روز سے روپوش تھا۔ذرائع کے مطابق گرفتار ملزم کو لاہور پولیس کے حوالے کردیا گیا ہے۔

واضح رہے کہ اس سے قبل پنجاب انجیکشن اسکینڈل میں پولیس نے 2 ملزمان کو گرفتار کیا تھا، ملزم عاصم خالد کو پولیس نے فیصل آباد سے گرفتار کیا جب کہ ایک اور ملزم بلال رشیدکو عارف والا سے گرفتار کیا گیا، دونوں ملزمان کے خلاف ڈرگ ایکٹ کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے۔

پنجاب میں جعلی انجیکشن لگنے سے بینائی متاثر ہونے کے اب تک 68 مریض سامنے آچکے ہیں۔

ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی نے ملک بھر کے اسپتالوں اور فارمیسیز کو متعلقہ انجیکشن استعمال کرنے سے روک دیا ہے۔نگران وفاقی وزیر صحت ندیم جان کے مطابق آنکھوں کو متاثر کرنے والی دوا کے پورے بیچ کو مارکیٹ سے اٹھا لیا گیا ہے اور اس دوا کو مارکیٹ میں فروخت کی اجازت نہیں ہے۔

ڈاکٹر جاوید اکرم کا کہنا تھا کہ اس انجیکشن کے آنکھوں میں استعمال کی کسی نے ایڈوائس نہیں لی تھی، ڈریپ سے بھی اس انجیکشن کی اجازت نہیں لی گئی۔ان کا کہنا تھا کہ گناہ گاروں کو سزا دی جائیگی، 5 سال کا ڈیٹا اکٹھا کر رہے ہیں، اسکینڈل میں ملوث افراد کو کوئی رعایت نہیں دی جائیگی۔

بہرحال اب نگراں وفاقی حکومت جعلی ادویات انجکشن کے خلاف کریک ڈاؤن کو وسعت دیتے ہوئے کارروائیاں شروع کرے، تمام میڈیکل اسٹورز کے لائسنس چیک کئے جائیں ادویات کی جانچ پڑتال کی جائے کہ کن کمپنیوں سے ادویات لی جارہی ہیں اورمارکیٹ میں فروخت ہورہی ہیں۔

یہ ایک انسانی مسئلہ ہے لہٰذا بروقت کارروائی سے بڑے سانحات سے بچا جاسکتا ہے۔ امید ہے کہ اس اہم مسئلے پر توجہ دیتے ہوئے غیرمعیاری اور جعلی اددیات فروخت کرنے والوں کو کیفر کردار تک پہنچایاجائے گا تاکہ انسانی اعضاء سمیت جانی نقصانات سے بچا جاسکے۔