|

وقتِ اشاعت :   September 28 – 2023

کوئٹہ: سینئر سیاست دان وسابق سینیٹر نوابزادہ حاجی میر لشکری خان رئیسانی نے کہا ہے کہ ملک میں ایک نئی سیاسی جماعت تشکیل دینے کی تجویز سامنے آئی ہے .

تاہم اس پر باضابطہ سنجیدہ گفتگو کا آغاز نہیںہوا، اگر کوئی سیاسی جماعت بنتی ہے تو بلوچستان کی اپنی شرائط ہوں گی،۔

اس پارلیمانی سیاسی عمل پر یقین رکھتے ہیں جس کے ذریعے قوموں کی اکائیوں کو ان کے اختیارات ملیں اور بلوچستان کو درپیش بحرانوں سے نکالا جاسکے ۔

2018ء کی پارلیمنٹ عوام کو ڈیلور کرنے میں ناکام رہی ،سیاسی جماعتوں نے پارلیمنٹ میں بیٹھ کر گروہی و ذاتی مفادات کو جمہوریت پر ترجیح دی، اٹھارویں آئینی ترمیم سیاسی جماعتوں کے درمیان ہونے والے چارٹر آف ڈیموکریسی کے نتیجے میں ہونے والے معاہدہ کے تحت ہوئی ۔

جو ایک سیاسی عمل کا حصہ تھی مگر اس کے بعد اٹھارویں ترمیم پر عملدرآمد نہیں ہوا ۔

یہ بات انہوں نے گزشتہ روز نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے کہی، نوابزادہ حاجی میر لشکری خان رئیسانی نے نئی سیاسی جماعت بنانے سے متعلق سوال کے جواب میں کہا کہ ملک میں اس وقت ایک عام رائے موجود ہے کہ پارلیمنٹ میںموجود سیاسی جماعتوںنے پارلیمنٹ کو یرغمال بناکر اسٹیلشمینٹ پر فروخت کرکے مفلوج کردیا ہے۔

ایسے میں ملک میں ایک ایسی سیاسی جدوجہد کاآغاز کیا جائے جس کے نتیجے میں پارلیمنٹ کی بالادستی قائم ہو۔

اور آئین مقدم ہو تاکہ حقیقی پارلیمنٹ وجود میں آکر ملک کے معاملات کو درست کرے اور مسائل کا حل تلاش کرے ہمارے ساتھیوں کی بھی ایک تجویز سامنے آئی کہ ملک میں ایک نئی سیاسی جماعت تشکیل دی جائے جس پر غور ہورہا ہے تاہم نئی پارٹی تشکیل دینے کے حوالے سے ابھی تک کوئی باضابطہ سنجیدہ گفتگو کا آغاز نہیں ہوا،۔

جب اس پر سنجیدہ گفتگو ہوگی تو ہی ہم کسی نتیجے پر پہنچیں گے، میں اور میرے ساتھی یہ سمجھتے ہیں کہ ملک میں سب سے زیادہ بحران زدہ قومی اکائی بلوچستان ہے۔

اور بلوچستان کی اپنی سیاسی شرائط اور معاملات ہیں ان پر بات ہونی چائیے اگر کوئی سیاسی جماعت بنتی ہے تو بلوچستان کی اپنی شرائط ہوں گی ۔ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ میں اور میرے ساتھی اس پارلیمانی سیاسی عمل یقین رکھتے ہیں جس کے ذریعے قوموں اکائیوں کو ان کے اختیارات ملیں اور بلوچستان کو درپیش بحرانوں سے نکالا جاسکے ۔

۔ ایک سوال کے جواب میں انہوںنے کہاکہ 2018ء کے انتخابات کے نتیجے میں وجود میں آنے والی پارلیمنٹ عوام کو ڈیلور کرنے میں ناکام رہی پارلیمنٹ میں موجود لوگ ملک کو کسی مثبت سمت میں نہیں لے جاسکے بلکہ اپنے ذاتی او رگروہی مفادات حاصل کرنے کیلئے ذاتی ڈیل کے نتیجے میں پارلیمنٹ کو مفلوج اور کمزور کرکے اپنے مفادات کا تحفظ کیا۔

ایک سوال کے جواب میں انہوںنے کہاکہ اٹھارویں آئینی ترمیم سیاسی جماعتوں کے درمیان ہونے والے چارٹر آف ڈیموکریسی کے تحت ہونے والے معاہدہ کے تحت ہوئی جو ایک سیاسی عمل کا حصہ تھی مگر اس کے بعد ارٹھاویں ترمیم پر عملدرآمد نہیں ہوا کیوں کہ سیاسی جماعتوں نے پارلیمنٹ میں بیٹھ کر گروہی و ذاتی مفادات کو ترجیح دی جمہوریت کو ترجیح نہیں دی۔نوابزادہ لشکری رئیسانی نے کہا کہ شفاف سیاسی عمل کے ذریعے منتخب ہونے والی پارلیمنٹ ہی ملک کو درپیش بحرانوں سے نکال سکتی ہے۔