ملک میں احتساب اور انصاف کا عمل جب شفاف ہوگا یقینا اس سے حقیقی تبدیلی آئے گی۔
گزشتہ کئی دہائیوںسے احتساب اور انصاف دونوں کی شفافیت کسی بھی جگہ نہیں رہی جس کی وجہ سے ملک بحرانات سے دوچار ہوکر رہ گیا ہے دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کی مثال صرف انصاف ہے جنگی حالات میں بھی وہاں کی عدلیہ اپنا کام احسن طریقے سے انجام دیتی ہے، ہمارے ہاں تاریخ کچھ اور ہی رہی ہے ایک وزیراعظم کو عدالتی فیصلے پر پھانسی دی گئی،
وزراء اعظم کو فارغ کیا گیا ایسے غلط فیصلے ہوئے کہ عدلیہ کے متعلق عام لوگوں میں تاثر انتہائی منفی گیا ہے۔ ایک سیاسی جماعت کے چیئرمین کو جس طرح سے 2014ء کے دوران سپورٹ کیا گیا اور آخر تک اس کے کیسز میں درجن بھر ضمانتیں دی گئیں اس کی مثال ملکی سیاسی تاریخ میں نہیں ملتی جبکہ دیگر سیاستدانوں کو تھوڑی سی بھی مہلت نہیں دی گئی،
فوری ان کی گرفتاری عمل میں لائی گئی پھر سزا دی گئی انہیں نااہل قرار دیا گیا۔ اہم سیاستدانوں کے ساتھ جب اس طرح کا رویہ اپنایاگیا تو اندازہ لگایاجاسکتا ہے
کہ عام سائلین جن کے کیسز سالہاسال سے عدالتوں میں چل رہے ہیں دنیا سے رخصت ہوگئے بچے جوان ہوگئے مگر ان کے کیسز کے فیصلے نہیں ہوئے کیونکہ میرٹ اور ترجیحات کچھ اور ہی رہی ہیں ۔ بہرحال موجودہ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سے بہت ساری توقعات لوگوں نے لگا رکھی ہیں کہ ہمارے یہاں عدلیہ کے ذریعے انصاف ہوتا ہوا دکھائی دے گا ۔اب فیض آباد دھرنا کیس کی سماعت جاری ہے اور سب کی نظریں اس پر لگی ہوئی ہیں کہ اس کے نتائج اور فیصلے کی روشنی میں کیا برآمد ہوگا۔ گزشتہ روز چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کاکیس کی سماعت کے دوران کہنا تھاکہ
مجھ سمیت سب کا احتساب ہونا چاہیے۔فیض آباد دھرنا کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ کراچی میں 55 لوگ مر گئے،کوئی ایکشن نہیں ہوا، یہاں جو بھی ہو کہا جاتا ہے ”مٹی پاؤ”، لوگ مر جائیں مٹی پاؤ۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ حضرت عمرؓ نے کہا تھا کہ دریا کے کنارے کتا بھی بھوکا
مر جائے تو میں جوابدہ ہوں، جتھے کی طاقت کی نفی نہیں کی گئی، وہ آج بھی غالب ہے، ہم نے سبق نہیں سیکھا۔چیف جسٹس پاکستان کا کہنا تھا جن صاحب کو بہت جمہوریت چاہیے تھی
وہ کینیڈا سے واپس کیوں نہیں آتے؟ پارلیمنٹ میں بحث نہیں ہو رہی، جرمنی میں فاشزم تھی
انہوں نے تسلیم کیا، اسلامی جمہوریہ پاکستان تو غلطیاں بھی تسلیم نہیں کرتا۔چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا مجھ سمیت سب کا احتساب ہونا چاہیے، احتساب سے کسی کو انکار نہیں ہونا چاہیے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا اٹارنی جنرل صاحب نے یہ سوال کیوں نہیں اٹھایا کہ نظرثانی درخواستیں پہلے کیوں نہ لگیں؟ یہ کہنا ٹھیک نہیں ہوتا کہ نئی حکومت یا پرانی حکومت، حکومت حکومت ہی رہتی ہے
پارٹی جو بھی ہو، سپریم کورٹ بھی وہی رہتی ہے جج چاہے کوئی بھی ہو، عدالت کے فیصلے پر عملدرآمد ہونا ہی چاہیے۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے ریمارکس واضح ہیں کہ احتساب سب کا لازم ہونا چاہئے
اور عدالتی فیصلے پرعملدرآمد یقینی ہونا چاہئے ۔فیض آباد دھرنا نے ایک بہت بڑا بھونچال ملکی سیاست میں پیدا کیا جس کے بعد جو حالات پیدا ہوئے وہ سب کے سامنے ہیں اور پھر حکومتوں کی تبدیلی نے ملک کو آج ایک ایسے نہج پر پہنچادیا ہے کہ معیشت سنبھل نہیں پارہی ہے جس کی بڑی وجہ سیاسی عدم استحکام اور بعض معاملات میں مداخلت ہے۔
امید ہے کہ ان تمام غیر قانونی راستوں کو عدلیہ کے ذریعے بند کیاجائے گا۔آئین اور قانون کی بالادستی کو یقینی بناتے ہوئے میرٹ کی بنیاد پر فیصلے کئے جائینگے کسی مخصوص طبقہ کو رعایت نہیں دی جائے گی۔