اسلام آباد: وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے سائفر کیس میں عمران خان اور شاہ محمود کے خلاف چالان عدالت میں جمع کرادیا۔
ایف آئی اے نے سائفر کیس کا چالان آفیشل سیکریٹ ایکٹ کی عدالت میں جمع کرایا جس میں چیئرمین تحریک انصاف عمران خان اور وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی کو قصور وار قرار دیا گیا ہے۔
ایف آئی اے نے چالان میں چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان اور شاہ محمود قریشی کو ٹرائل کرکے سزا دینے کی استدعا کی ہے۔
ذرائع کے مطابق تحریک انصاف کے سابق جنرل سیکرٹری اسد عمر ایف آئی اے کی ملزمان کی لسٹ میں شامل نہیں ہیں جب کہ چالان میں سابق پرنسپل سیکرٹری اعظم خان ایف آئی اے کے مضبوط گواہ ہیں اور اعظم خان کا 161 اور 164 کا بیان چالان کے ساتھ منسلک کیا گیا ہے۔
ذرائع نے بتایا کہ چالان کے مطابق چیئرمین پی ٹی آئی نے سائفر اپنے پاس رکھا اور اسٹیٹ سیکریٹ کا غلط استعمال کیا۔
چالان کے مطابق سائفر کاپی چیئرمین پی ٹی آئی کے پاس پہنچی لیکن واپس نہیں کی گئی۔
ذرائع کے مطابق چالان میں عمران خان اور شاہ محمود کی 27 مارچ کی تقریر کا ٹرانسکرپٹ منسلک ہے اور اس کے ساتھ 28گواہوں کے 161 کے بیانات ریکارڈ ہونے کے بعد چالان کے ساتھ لگائے گئے ہیں۔
چالان میں عمران خان اور شاہ محمود کی 27 مارچ کی تقریر کا ٹرانسکرپٹ منسلک
ایف آئی اے نے 28 گواہوں کی لسٹ چالان کے ساتھ سیکرٹ ایکٹ عدالت میں جمع کرائی ہے۔
ذرائع نے بتایا کہ ایف آئی اے کے گواہوں میں سیکرٹری خارجہ اسد مجید، سابق سیکرٹری خارجہ سہیل محمود، ایڈیشنل سیکرٹری خارجہ فیصل نیاز ترمزی اور سائفر وزارت خارجہ سے لےکر وزیراعظم تک پہنچنے تک پوری چین گواہان میں شامل ہے۔
سائفر کا معاملہ کیا ہے؟
خیال رہےکہ چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان نے امریکا میں پاکستانی سفیر کے مراسلے یا سائفرکو بنیاد بنا کر ہی اپنی حکومت کے خلاف سازش کا بیانیہ بنایا تھا جس میں عمران خان نے دعویٰ کیا تھا کہ ان کی حکومت کے خاتمے میں امریکا کا ہاتھ ہے تاہم قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں سائفر کو لے کر پی ٹی آئی حکومت کے مؤقف کی تردید کی جاچکی ہے۔
اس کے علاوہ سائفر سے متعلق عمران خان اور ان کے سابق سیکرٹری اعظم خان کی ایک آڈیو لیک سامنے آئی تھی جس میں عمران خان کو کہتے سنا گیا تھا کہ ’اب ہم نے صرف کھیلنا ہے، امریکا کا نام نہیں لینا، بس صرف یہ کھیلنا ہے کہ اس کے اوپر کہ یہ ڈیٹ پہلے سے تھی جس پر اعظم خان نے جواب دیا کہ میں یہ سوچ رہا تھا کہ اس سائفر کے اوپر ایک میٹنگ کر لیتے ہیں‘۔
اس کے بعد وفاقی کابینہ نے اس معاملے کی تحقیقات ایف آئی اے کے سپرد کیا تھا۔
اعظم خان پی ٹی آئی کے دوران حکومت میں اس وقت کے وزیراعظم عمران خان کے پرنسپل سیکرٹری تھے اور وہ وزیراعظم کے انتہائی قریب سمجھے جاتے تھے۔
سائفر کے حوالے سے سابق ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل بابر افتخار نے کہا تھا سائفر پر ڈرامائی انداز میں بیانیہ دینے کی کوشش کی گئی اور افواہیں اور جھوٹی خبریں پھیلائی گئیں جس کا مقصد سیاسی فائدہ اٹھانا تھا۔