|

وقتِ اشاعت :   October 1 – 2023

کوئٹہ: اتحاد اہلسنت بلوچستان کے سربراہ سید شجاع الحق شاہ ہاشمی، شیخ الحدیث مفتی محمد صدیق القادری، مفتی مختیار احمد حبیبی، سید حبیب اللہ شاہ چشتی نے کہا کہ سانحہ مستونگ دالخراش واقعہ میں جید علماء ، حفاظ کرام اور عوام اہلسنت کے شہید ہونے کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت اہلسنت کو دیوار سے لگایا جارہا ہے .

سانحہ مستونگ کیخلاف (آج )بروز اتوار یکم اکتوبر کو بلوچستان بھر میں شٹر ڈائون ہڑتال اور احتجاجی مظاہرے کئے جائیں گے۔

\انجمن تنظیمیں ہڑتال کو کامیاب بنائے۔ حکومت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں نے سانحہ ملوث ملزمان اور سہولت کاروں کے خلاف کارروائی نہ تو ہم اپنے احتجاج کو پاکستان بھر میں وسعت دیں گے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے ہفتہ کو کوئٹہ پریس کلب میں علامہ شہزاد احمد عطاری، حاجی محمد ظریف رضوی ، فقیر غلام محمد حسینی، مولانا عبدالقدوس حبیبی، مولانا احمد رضا قمبرانی، مفتی محمد جان قاسمی اور حافظ محمد یوسف مسکانزئی، علامہ غلام عباس قادری و دیگر کے ہمراہ پریس کانفرنس کے دوران کیا۔

انہوں نے کہا کہ عید میلاد النبی ﷺ کے حوالے سے علماء اہلسنت تنظیمات اہلسنت کے تحفظات کے باوجود حکومت اور سیکورٹی اداروں نے اقدامات نہیں کئے سانحہ میں ملوث عناصر کو گرفتار کرکے کیفر کردار تک پہنچایا جائے ہماری حب الوطنی کو کمزوری نہ سمجھا جائے۔مستونگ ، خضدار، حب چوکی سمیت بلوچستان بھر میں میلاد النبی ﷺ کے جلوسوں کی فول پروف سیکورٹی کے انتظامات نہیں کئے گئے تھے.

جس کی وجہ سے المناک سانحہ پیش آیا جس میں 70 سے زائد افراد شہید اور 300 سے زائد زخمی ہوئے۔

پولیس کے ذمہ داروں سے سیکورٹی انتظامات کے بارے بات کی لیکن کسی نے بھی اس حوالے سے تعاون نہیں کیا۔مستونگ ہمیشہ دہشت گردی کی زد میں رہاہے۔ نواب غوث بخش میموریل ہسپتال مستونگ اور کوئٹہ ٹراما سینٹر میں زخمیوں کو طبی امداد کیلئے کوئی سہولت موجود نہیں لوگ اپنی مدد آپ کے تحت زخمیوں کی مرہم پٹی کرتے رہے۔ صحت کے شعبے پر کروڑوں روپے خرچ ہونے کے باوجود ہسپتالوں میں عملہ اور ادویات، انجکشن سمیت سہولیات کا فقدان ہے جوکہ حکومت کی کرپشن اور اور بے حسی کا واضح ثبوت ہے۔

ایمبولینس نہ ہونے کی وجہ سے لوگ اپنے پیاروں کو رکشوں، دیگر پرائیویٹ گاڑیوں میں ہسپتال پہنچایا۔ محکمہ صحت اور سیکورٹی اداروں کے اہلکار موقع پر نظر نہیں آئے شہداء کے اعضاء دور دور تک بکھرے پڑے تھے ۔لوگ اپنی مدد آپ کے تحت زخمیوں اور شہداء کو اٹھاتے رہے۔ سانحہ مستونگ جشن عید میلاد النبی ﷺ کے جلوس پر دھماکہ کرنا انتہائی افسوسناک ہے اور ایسا کرنے والے مسلمان کیا انسان کہلانے کے لائق بھی نہیں ہر بار عید میلاد النبیﷺ کے حوالے سے سیکورٹی معاملات پر کوئی سنجیدہ اقدام نہیں اٹھایا جاتا ہے اور ناقص انتظامات کئے جاتے ہیں۔

صرف ایس ایس پی مستونگ کی معطلی مسئلہ کا حل نہیں امن وامان قائم رکھنے کے لئے عملی اقدامات کی ضرورت ہے سانحہ ملوث سہولت کاروں اور عناصر کو کو کیفر کردار تک پہنچا نا ضروری ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ایسی صورتحال میں اہلسنت کا اتحاد انتہائی ناگزیر ہے اس اہم مسئلے پر ایک کمیٹی اتحاد اہلسنت بلوچستان کا قیام عمل میں لایا گیا ہے جوکہ 12 ارکان پر مشتمل ہے سانحہ کے حوالے سے کام کرے گی۔ سانحہ مستونگ میں عاشقان رسول ﷺ ، علماء، کرام، اور عوام اہلسنت بھی شہید ہوئے ہیں۔ 7 بہنوں کا اکلوتا بھائی اور ایسے گھر بھی ہیں جن سے تین، تین جوان شہید ہوئے ہیں۔

اس وقت مستونگ میں قیامت صغریٰ کا منظر ہے لیکن سیکورٹی ادارے خواب خرگوش کے مزے لے رہے ہیں عوام کے جان و مال کے تحفظ میں مکمل طور پر ناکام ہوچکے ہیں۔ ‘

اگر ملوث ملزمان کو کیفر کردار تک نہ پہنچایا گیا تو سخت قدم اٹھانے پر مجبور ہوں گے جسے کنٹرول کرنا مشکل ہوگا اور جس کی تمام تر ذمہ داری متعلقہ حکام پر عائد ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ سانحہ مستونگ کے خلاف بلوچستان بھر میںآج بروز اتوار یکم اکتوبر کو شٹر ڈائون ہڑتال کا اعلان کرتے ہیں تاجر برادری تعاون کرکے دکانیں، مارکیٹیں بند رکھیں۔ اہلسنت و الجماعت کا مزید امتحان نہ لیا جائے صبر کا پیمانہ لبریز ہوچکا ہے ۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اگر حکومت اور اداروں نے اس کا نوٹس نہ لیا تو ہم مرکزی تنظیم کے توسط سے ملک گیر سطح پر احتجاج کو وسعت دیں گے عید میلاد النبی کے موقع پر انتظامیہ اور حکومت نے ہمیشہ سیکورٹی انتظامات کے حوالے سے غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کیا ہے جس کی وجہ سے اتنا بڑا سانحہ رونما ہوا ہے جس سے ہر آنکھ اشکبار ہے۔ ہسپتال میں زیر علاج مریضوں کے لئے ادویات کا فقدان ہے ان کا کہنا تھا کہ 2006ء سے علماء اہلسنت اور عوام اہلسنت کے جنازے اٹھا اٹھا کر تھک چکے ہیں.

ان کے قاتلوں کو گرفتار نہیں کیا گیا جو حکومت اور حکام کے لئے لمحہ فکریہ ہے۔ انہوں نے کہاکہ حکومتی اور انتظامی عہدیداران نے کسی بھی شہید کے جنازے میں شرکت نہیں کی انہوں نے آئی جی پولیس بلوچستان کے موقف کو رد کرتے ہوئے کہا کہ ڈی ایس پی کی شہادت پر ہمیں افسوس ہے اور وہ خود کش حملہ آور کو روکتے ہوئے شہید نہیں ہوئے بلکہ جلوس میں شرکت کے لئے آئے تھے۔ دور دور تک سیکورٹی کے اہلکار نظر نہیں آرہے تھے۔