|

وقتِ اشاعت :   October 1 – 2023

کوئٹہ : انجمن تاجران بلوچستان رجسٹرڈ کے صدر رحیم آغا ، جنرل سیکرٹری ولی افغان ، نائب صدر سید حیدر آغا، تندور ایسوسی ایشن کے عہدیداران حاجی علی خان ترکئی نے صوبائی حکومت اور انتظامیہ سے اپیل کی ہے کہ بڑھتی ہوئی مہنگائی اور گندم سمیت آٹے کی قیمتوں میں اضافے کو مد نظر رکھتے ہوئے تجزیہ کرکے روٹی کی قیمت بڑھائی جائے۔

بصورت دیگر ہم احتجاج کرنے پر مجبور ہوں گے جس کی تمام تر ذمہ داری ضلعی انتظامیہ پر عائد ہوگی۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے اتوار کو حاجی اسلم ترین ، طاہر خان جدون، عبدالکبیر، مجید خان، یاسین خان اور دیگر کے ہمراہ کوئٹہ پریس کلب میں پریس کانفرنس کے دوران کیا۔ انہوںنے کہا کہ حکومت کی ناقص پالیسیوں کی بدولت آج 25 کروڑ عوام اور تاجر برادری مہنگائی اور بے جا ٹیکسز کی دلدل میں پھنس چکے ہیں۔

انتظامیہ اپنی ذمہ داری پوری کرنے کی بجائے تاجروں پر بلا جواز کارروائیاں کرکے آئے روز نان بائیوں سمیت دیگر دکانداروں کے خلاف کریک ڈائون کرکے ان کو بھاری جرمانے کرنے کے ساتھ ساتھ پابند سلاسل کررہی ہے جس سے کاروبار کرنا محال ہوچکا ہے 17 مارچ کو چیف سیکرٹری نے پرائس کنٹرول کمیٹی کے اختیارات ڈی سی آفس سے لیکر محکمہ انڈسٹریز اینڈ کامرس کو دیئے گزشتہ 2 سالوں میں 100 کلو آٹے کی بوری 7 ہزار روپے سے بڑھ کر 15000 روپے تک پہنچ چکی ہے۔

اور نان بائی گندم اور آٹے ، گیس ، بجلی، ایل پی جی اور لیبر کی مزدوری میں اضافے کے باوجود 30 روپے میں روٹی فروخت کررہے ہیں ہم 10 ماہ سے روٹی کی قیمت میں اضافے کے لئے محکمہ انڈسٹری اور انتظامیہ کے دفاتر کے چکر لگارہے ہیں کوئی شنوائی نہیں ہورہی انتظامیہ نے تجزیہ سامنے آنے کے باوجود 220 گرام کی روٹی 30 روپے میں فروخت کرنے کا نوٹیفکیشن جاری کیا ۔

اورآج تک اسی پر روٹی فروخت ہورہی ہے انہوں نے کہا کہ تجزیہ کے مطابق 180 گرام کی روٹی 30 روپے میں فروخت کرنے کی اجازت دی جائے۔ انہوں نے کہا کہ انتظامیہ ہر روز دو درجن دکانوں کے خلاف کارروائی کرکے 5 ہزار سے 20 ہزار روپے جرمانہ کرکے رقم لیکر بغیر رسید کے چھوڑ دیتے ہیں اگر کوئی اعتراض کرتا ہے تو اسے پابند سلاسل کردیا جاتا ہے انہوں نے کہاکہ ہم نے اعلیٰ حکام کی تمام میٹنگوں میں شرکت کرکے آگاہ کیا۔

لیکن شنوائی نہیں ہوئی اگر انتظامیہ نے روٹی کے وزن اور قیمت کا نوٹیفکیشن جاری نہ کیا تو ہم پر امن احتجاج اور عدالت سے رجوع کریں گے بصورت دیگر احتجاج کا راستہ اپنائیں گے جس سے حالات کی تمام تر ذمہ داری متعلقہ حکام اور انتظامیہ پر عائد ہوگی۔