پاکستان میں گزشتہ ماہ مہنگائی میں 2 فیصد اضافے کے بعد ملک میں مہنگائی کی شرح 31.44 فیصد تک جا پہنچی ہے۔
ادارہ شماریات کی جاری کردہ رپورٹ کے مطابق ستمبر کے مہینے میں شہری علاقوں میں مہنگائی کی شرح میں 1.67 فیصد اضافہ ہوا۔ادارہ شماریات کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ ستمبر میں پیاز 39.3 اور دال مسور 19.8،سبزیاں 11.7، چینی 10.8، دال ماش 9.46 اور لوبیا 7.1 فیصد مہنگا ہوا۔ستمبر میں موٹر فیول 11.30 اور مائع ایندھن 9.2 فیصد مہنگا ہوا جبکہ ٹرانسپورٹ چارجز 4.2 فیصد بڑھے۔ ستمبر 2022 سے ستمبر 2023 تک بجلی کی قیمت میں 163.7 فیصد اضافہ ہوا جبکہ چینی 93.4، آٹا 87.5 اور چائے 83.6 فیصد مہنگی ہوئی۔
رپورٹ کے مطابق ایک سال میں ٹرانسپورٹ چارجز 55.6 فیصد بڑھے، اسٹیشنری 42.7 اور گھریلو سامان 38.2 فیصد مہنگا ہوا اور موٹر فیول 33.4،گاڑیوں کے آلات 32.9 فیصد مہنگے ہوئے۔
دوسری جانب عالمی بینک نے غربت مٹانے کیلئے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کا بجٹ ناکافی قرار دے دیا۔عالمی بینک نے پاکستان میں غربت کے حوالے سے کہا کہ گزشتہ 20 برس سے پاکستان میں غربت میں اضافہ ہو رہا ہے، 20 سال قبل غربت کم تھی اس لیے بے نظیرانکم سپورٹ پروگرام کا بجٹ بڑھانا ہوگا۔
عالمی بینک کے مطابق آئندہ مالی سال غربت 39.4 فیصد سے کم ہوکر 35 فیصد تک رہنے کا امکان ہے۔عالمی بینک کا کہنا ہے کہ رائزٹوپروگرام کے تحت 35کروڑ ڈالربورڈ کی منظوری سے جلد ملیں گے اور رواں مالی سال پاکستان کی معاشی گروتھ 1.7فیصد تک رہ سکتی ہے۔عالمی بینک نے گاڑیوں کی خریداری، اخراجات میں کمی، تنخواہ اور پینشن اسٹرکچر اصلاحات پر زور دیا ہے۔
عالمی بینک کا کہنا ہے کہ پاکستان میں بجٹ خسارہ رواں اور آئندہ مالی سال بلند سطح پر رہے گا جس سے عوام کو رواں مالی سال مہنگائی میں بڑا ریلیف نہیں مل سکتا۔عالمی بینک کے مطابق 2023 میں پاکستان میں مہنگائی کے بڑھنے کی شرح 29.2 فیصد رہی ہے جو 2024 میں 26.5 فیصد رہے گی.
اور توقع ہے کہ 2025 میں پاکستان میں مہنگائی بڑھنے کی شرح 17 فیصد پر آجائے گی۔عالمی بینک کے کنٹری ڈائریکٹر نے کہا کہ توانائی کے نقصانات میں کمی کے لیے فوری اقدامات کی ضرورت ہے جس کیلئے عالمی بینک توانائی اصلاحات کے لیے تعاون جاری رکھے گا۔عالمی بینک کے مطابق رئیل اسٹیٹ شعبے میں سرمایہ کاری کیلئے لوگوں میں اعتمادکا فقدان ہے ۔
جبکہ زرعی شعبے کی گروتھ2.2 فیصد، صنعت1.4 اور سروسز سیکٹر کی گروتھ1.5 فیصد رہ سکتی ہے۔رواں مالی سال مہنگائی 26.5 فیصد،کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ جی ڈی پی کا 1.4 فیصد، مالیاتی خسارہ جی ڈی پی کا 7.7 فیصد، ڈیٹ ٹو جی ڈی پی 72.4 فیصد رہ سکتا ہے، انرجی مکس منصوبوں سے 5 سے 10 سال میں انرجی قیمتوں میں کمی آسکتی ہے۔
پاکستان میں درآمدی فیول پر انحصار کے باعث انرجی پرائسز زیادہ ہیں، انرجی ٹیرف کم رکھاگیا جس کے باعث گردشی قرضے کے مسائل بڑھے، انرجی سیکٹر میں اصلاحات ناگزیر، ڈسٹری بیوشن اور ٹرانسمیشن کے مسائل حل کرنا ہوں گے۔بہرحال حقیقت یہ ہے کہ ملک میںمہنگائی کم کے امکانات بہت ہی کم ہیں یعنی مہنگائی کی شرح میں اضافہ کاامکان موجود ہے۔
اس کے باوجود کہ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی ہوئی ہے مگر عوام کو اس کا ریلیف اشیاء خوردونوش سمیت کرایوں ودیگر حوالے سے نہیں مل رہی ہے۔ بہرحال ملک میں معیشت کے حوالے سے جب تک ایک مکمل طویل مدتی پلان مرتب نہیں کیاجائے گا نتائج بہتر نہیں نکلیں گے اور اس کے لیے منتخب حکومت کا کلیدی کردار ہوگا ۔اب دیکھنا یہ ہے کہ آئند ہ عام انتخابات میں بننے والی حکومت کی ترجیحات کیا ہونگی اور معیشت کے حوالے سے کیا پالیسی بنائی جائے گی جس سے اس کے مثبت نتائج برآمدہوں۔