تارکین وطن کو پاکستان چھوڑنے کے لئے ایک ماہ کی ڈیڈ لائن دی جائے گی،
ڈیڈ لائن ختم ہونے کے بعد ڈی پورٹ کردیا جائے گا۔ قانونی طور پر پاکستان میں مقیم غیر ملکیوں کیخلاف کوئی کارروائی نہیں ہوگی۔ پاکستان میں غیر قانونی طور پر مقیم افغان باشندے ڈالر کی غیر قانونی تجارت سے پاکستانی معیشت کو نقصان پہنچانے میں ملوث ہیں، بیشتر غیر قانونی تارکین وطن مجرمانہ سرگرمیوں اور اسمگلنگ میں بھی ملوث ہیں۔
گزشتہ دنوں نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ کا کہنا تھا کہ جن افغان مہاجرین کے پاس ویزا یا دستاویز نہیں انہیں فوری واپس بھیجیں گے۔
ان کا کہناتھا کہ کچھ لوگوں نے یہاں ہماری فیملی ٹری میں گھس کر شناختی کارڈ بنائے، ایک مشق چل رہی ہے کہ ایسے لوگوں کا بھی پتا لگایا جائے۔اس کے علاوہ نگران وزیر خارجہ جلیل عباس جیلانی نے بھی کہا تھا کہ افغان مہاجرین سمیت تمام غیر ملکیوں کے خلاف کریک ڈاؤن کا فیصلہ کیا گیا ہے، غیر قانونی تارکین وطن کو پاکستان سے واپس ان کے ملکوں کو بھیجا جائے گا۔
حقیقت یہ ہے
کہ پاکستان میں افغان مہاجرین کی بڑی تعداد غیر قانونی طور پر گزشتہ کئی دہائیوں سے رہائش پذیر ہے ، اور یہ تجارت سے لے کر سیاسی سرگرمیوں تک میں شامل ہیں اگر صحیح معنوںمیں تحقیقات کی جائے یقینا بڑے کاروباری طبقے اور اس میں چند سیاسی شخصیات بھی نکلیں گے.
جن میں سے بیشتر کا تعلق بلوچستان اور کے پی کے سے ہے۔ سرد جنگ کے بعد افغان مہاجرین کی آمد کا سلسلہ پاکستان میں شروع ہوا اورتاہنوز یہ جاری ہے البتہ اب سخت اقدامات کی وجہ سے افغان سرحد سے غیر قانونی طور پر افغان مہاجرین کی آمد کسی حد تک رک گئی ہے۔ پاکستان کی معاشرتی اورسماجی بگاڑ میں غیرقانونی افغان مہاجرین کا بہت بڑا ہاتھ ہے .
انہوں نے اسلحہ کلچراورمنشیات جیسی لعنت کو پاکستان کے طول وعرض میں پھیلایا جبکہ اسمگلنگ کاکام توافغان مہاجرین دہائیوں سے کرتے آرہے ہیں خاص کر غیر ممنوعہ اشیاء کا کاروبار توان کی تجارت کو وسعت دینے کابڑا ذریعہ ہے۔
بڑی بڑی رقوم رشوت دے کر انہوں نے پاکستانی سرکاری دستاویزات بھی بنائے ہیں ماضی کے ریکارڈ کوچیک کیا جائے تو سب کچھ واضح ہوجائے گا۔ ملک میں دہشت گردی کی زیادہ تر سرگرمیوں میں افغان مہاجرین ہی ملوث رہے ہیں جو سرحد پار کرکے پاکستان میںداخل ہوتے ہیں اور یہاں موجود غیر قانونی طور پر مقیم افغان مہاجرین سہولت کار کے طورپر ان کی معاونت کرتے ہیں ۔ بلوچستان اور کے پی کے سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔ اب ایک بار پھر دہشت گردی کی نئی لہر نے ملک میں خوف کی فضاء پیدا کردی ہے۔
اور ایک ایسے وقت میں جب عام انتخابات قریب ہیں دہشت گردی کے واقعات تیزی کے ساتھ بڑھتے جارہے ہیں جس کا مقصد ملک میں دہشت اور انارکی پھیلانا ہے۔
لہذاعدم استحکام پھیلانے والوں کے ساتھ کسی طور رعایت نہیں برتنی چاہئے ۔دہشت گردوں کا قلع قمع انتہائی ضروری ہے اس وقت سب سے بڑا چیلنج دہشت گردی ہے اسے سنجیدگی سے لیتے ہوئے تمام اسٹیک ہولڈرز کو نگراں وفاقی حکومت اور عسکری قیادت کے ساتھ ملکر کام کرنے کی ضرورت ہے۔
کیونکہ ملکی سلامتی سب سے اہم ہے جب عدم استحکام کی صورت ہوگی تو ملک میں معیشت اور سیاست دونوں متاثر ہونگے۔ بہرحال اب نگراں وفاقی حکومت اور عسکری قیادت نے فیصلہ کرلیا ہے کہ افغان مہاجرین ہوں یا دیگر دہشت گرد ان کے خلاف سخت ایکشن لیاجائے گا امید ہے کہ اس کے مثبت نتائج سامنے آئینگے۔