سپریم کورٹ میں ’پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ 2023‘ کے خلاف دائر 9 درخواستوں پر سماعت کے دوران چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ 4 سماعتوں کے باوجود یہ ہماری کارکردگی ہے کہ ایک کیس ختم نہیں ہوا۔
چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی جانب سے تشکیل کردہ فل کورٹ بینچ ’سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ 2023‘ کے خلاف دائر 9 درخواستوں پر سماعت کر رہا ہے، جسے براہ راست نشر کیا جا رہا ہے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 15 رکنی فل کورٹ بینچ میں جسٹس سردار طارق مسعود، جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس سید منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس امین الدین خان، جسٹس سید مظاہر علی اکبر نقوی، جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس عائشہ اے ملک، جسٹس اطہر من اللہ، جسٹس سید حسن اظہر رضوی، جسٹس شاہد وحید اور جسٹس مسرت ہلالی شامل ہیں۔
سماعت شروع ہونے پر ایم کیو ایم (پاکستان) کے وکیل فیصل صدیقی نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ درخواستیں قابل سماعت ہونے کا سوال نہیں اٹھاوں گا، درخواستگزاروں نے جن دو فیصلوں کا حوالہ دیا ان پر بات کروں گا، ایک باز کاکڑ کیس کا حوالہ دیا گیا، دوسرا سپریم کورٹ ریویو ایکٹ سے متعلق فیصلے کا حوالہ دیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ اگر درخواستگزاروں کی ان فیصلوں کی تشریح درست ہو پھر تو ایکٹ غلط ہے، ان فیصلوں اور موجودہ کیس میں مگر فرق ہے، کیس میں فریق نہیں ہوں، عدالت کے نوٹس پر پیش ہوا، سوال ہوا کہ کیا سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر سادہ اکثریت کی قانون سازی سے بدل سکتے ہیں، ان فیصلوں کے کچھ حصے موجودہ کیس سے تعلق رکھتے ہیں، جسٹس عائشہ ملک نے سوال کیا کہ آرٹیکل 191 میں ’لا‘ کا لفظ پارلیمنٹ کو قانون سازی کا اختیار دیتا ہے۔
اس پر جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیے کہ سوال یہ تھا کہ کیا ’سبجیکٹ ٹو لا‘ کا مطلب ایکٹ آف پارلیمنٹ ہے؟
دوران سماعت چیف جسٹس اور جسٹس منیب اختر کے درمیان جملوں کا تبادلہ ہوا، جسٹس منیب اختر نے وکیل کو سوال پر فوکس کرنے کی ہدایت دی، اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ میرا خیال ہے وکیل کا حق ہے وہ جیسے دلائل دینا چاہے دے۔
جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ بینچ میں بیٹھے جج کے طور پر سوال کرنا میرا حق ہے، آئی ایم سوری مجھے بار بار ٹوکا جائے تو یہ درست نہیں۔
چیف جسٹس نے وکیل کو ہدایت دی کہ آپ سوالوں کا جواب دینے کے بجائے اپنی بات پہلے مکمل کریں، بینچ اراکین سے درخواست کروں گا پہلے انہیں بات مکمل کرنے دیں۔
چیف جسٹس کے روکنے کے باوجود جسٹس منیب اختر نے سوال کیا کہ صرف یہ بتا دیں کہ آرٹیکل 191 میں ’لا‘ کا کیا مطلب ہے،
چیف جسٹس نے جسٹس منیب سے مکالمہ کیا کہ اگر آپ نے پہلے ہی ذہن بنا لیا ہے تو فیصلے میں لکھ لیجیے گا، جسٹس منیب اختر نے جواب دیا کہ معذرت کے ساتھ میرا مسئلہ میرا سوال ہے اور اس کا جواب دیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ظاہر ہے آپ سوال کر سکتے ہیں لیکن پہلے وکیل دلائل تو مکمل کریں، 4 سماعتوں کے باوجود یہ ہماری کارکردگی ہے کہ ایک کیس ختم نہیں ہوا۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ کیا اس قانون سے سپریم کورٹ کی اندرونی ورکنگ میں مداخلت ہوئی یا نہیں؟ فیصل صدیقی نے جواب دیا کہ پارلیمنٹ سپریم کورٹ کے اختیارات کو کم کرنے جیسی قانون سازی نہیں کر سکتی، موجودہ قانون سے مگر یہ اصول متاثر نہیں ہوا۔
فیصل صدیقی نے کہا کہ سپریم کورٹ رولز میں ’لا‘ کی تعریف لکھی ہے، سپریم کورٹ رولز بناتے وقت اس بات پر کوئی ابہام نہیں تھا کہ ’لا‘ کا کیا مطلب ہے، ’سبجیکٹ ٹو‘ اور ’لا‘ کو الگ الگ بھی پڑھ سکتے ہیں۔
وکیل ایم کیو ایم کی ایکٹ کے خلاف درخواستیں خارج کرنے کی استدعا
دریں اثنا ایم کیو ایم نے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کی حمایت کر دی، ایم کیو ایم کے وکیل فیصل صدیقی نے ایکٹ کے خلاف درخواستیں خارج کرنے کی استدعا کرتے ہوئے کہا کہ ایکٹ کے خلاف درخواستیں قابل سماعت ہیں مگر میرٹ پر خارج کی جائیں۔
جسٹس اعجازالاحسن نے استفسار کیا کہ آئین نے یہ کیوں کہا کہ عدلیہ، ایگزیکٹو اور مقننہ الگ الگ ہیں؟ ایکٹ سے سپریم کورٹ کی آزادی میں مداخلت کی گئی، فیصل صدیقی نے جواب دیا کہ ایکٹ کو سپریم کورٹ کے اندرونی امور میں مداخلت کے طور پر نہیں دیکھ سکتے۔
جسٹس منیب اختر نے استسفار کیا کہ کیا لیجسلیٹیو انٹریز پارلیمنٹ کو سپریم کورٹ پر سپروائزری کا اختیار دیتی ہیں؟
جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ یہ اہم سوال ہے جس کو آگے بڑھانا چاہتا ہوں، اگر آرٹیکل 191 کو لیجسلیٹیو انٹری 58 کے ساتھ ملا کر پڑھیں تو پارلیمنٹ کے پاس قانون سازی کا مکمل اختیار تھا، صلاح الدین نے اسی کا حوالہ دے کر کہا کہ پارلیمنٹ تو سپریم کورٹ رولز ختم بھی کر سکتی ہے، اس پر وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ میری رائے صلاح الدین احمد سے مختلف ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ سپریم کورٹ کے پروسیجرز میں لفظ پریکٹس کا کیا مطلب ہے؟
فیصل صدیقی نے جسٹس منیب اختر کے بطور ریفری جج دیے گئے فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ جسٹس منیب اختر نے اپیل کے حق میں لکھا تھا۔
جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ وہاں بات قانون میں دیے گئے اپیل کے حق کی تھی۔
یاد رہے کہ گزشتہ روز 9 اکتوبر کو ہونے والی سماعت کے دوران چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے تھے کہ پارلیمنٹ کو تو کہتے ہیں نمبر گیم پوری ہونی چاہیے لیکن فرد واحد آکر آئینی ترمیم کرے تو وہ ٹھیک ہے، پارلیمنٹ کچھ اچھا کرنا چاہتی ہے تو اُس کو کچلنا کیوں چاہتے ہیں اور دو تہائی اکثریت نہ ہونے پر پارلیمنٹ کے اچھے کام رکاوٹ نہیں ڈالنی چاہیے۔
3 اکتوبر کو ہونے والی سماعت کے دوران چیف جسٹس آف پاکستان نے استفسار کیا تھا کہ اس ایکٹ سے عدالت عظمیٰ کے اختیارات کیسے کم ہوئے؟
قبل ازیں 18 ستمبر کو ہونے والی سماعت پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ’سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ 2023‘ کے خلاف دائر 9 درخواستوں پر سماعت ملتوی کرتے ہوئے فریقین کو 25 ستمبر تک عدالتی سوالات کے جوابات کے ساتھ تحریری دلائل جمع کرنے کا حکم دیا تھا اور کہا تھا کہ بینچوں کی تشکیل کے لیے دونوں سینئر ججوں سے مشاورت کر رہا ہوں۔
ملکی تاریخ میں پہلی بار سپریم کورٹ کی کارروائی براہ راست نشر کی گئی تھی۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سماعت کے آخر میں حکم نامہ لکھواتے ہوئے کہا تھا کہ بینچوں کی تشکیل کے لیے سینئر ترین جج سردار طارق مسعود اور جج اعجازالاحسن سے مشاورت کر رہے ہیں اور یہ ہم اپنے طور پر کر رہے ہیں۔
چیف جسٹس نے فریقین سے کہا تھا کہ وہ اپنے دلائل مختصر اور جامع رکھیں اور سماعت کی تاریخ 3 اکتوبر مقرر کردی تھی، جس پر درخواست گزار کے وکیل خواجہ طارق رحیم نے اتفاق کیا تھا۔
حکم نامے میں چیف جسٹس نے کہا کہ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ 2023 کی سماعت کے لیے فل کورٹ تشکیل دینے کے لیے دائر کی گئیں درخواست فل کورٹ کی تشکیل کی بنیاد پر نمٹا دی گئی