سپریم کورٹ آف پاکستان نے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیخلاف درخواستیں مسترد کرتے ہوئے ایکٹ کو برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا .
جس کے بعدیہ ایکٹ نافذ ہوگیا ہے۔سپریم کورٹ نے ازخود نوٹس اور آرٹیکل 184 تھری سے متعلق اپیلوں پر فیصلہ سنایا، ایکٹ کے خلاف درخواستیں مسترد کردی گئیں، ازخود نوٹس کا فیصلہ تین سینئر ججز کی کمیٹی کرے گی، سزا کے خلاف اپیل کی جا سکے گی، لیکن ایکٹ کا اطلاق ماضی کے کیسز سے نہیں ہوگا،9 کے مقابلے میں 6 کے تناسب سے اپیل کے حق کی شق کو برقرار رکھا گیا۔
چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیس کا محفوظ فیصلہ سنایا۔ 10 ججوں نے ایکٹ کے حق میں فیصلہ دیا، 5 نے مخالفت کی۔پریکٹس اینڈ پروسیجر کیس کی سماعت میں چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ جیواور جینے دو، پارلیمان ہماری دشمن نہیں، ہم ایک دوسرے کے ادارے کو منفی سوچ سے کیوں دیکھتے ہیں۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ایک جابر نے آئین میں ترمیم کردی تو کوئی نہیں بولا، پارلیمنٹ نے قانون سازی کردی تو سوالات ہو رہے ہیں، ہم آئینی ادارے پارلیمنٹ میں مین میخ نکال رہے ہیں، پارلیمنٹ چاہتی تو ایک قدم آ گے جا سکتی تھی، پارلیمنٹ نے عدالت پر اعتماد کیا کہ ہم اپنے معاملات کیسے چلائیں، پارلیمنٹ نے اس قانون سے سپریم کورٹ کی عزت رکھی، ماضی قریب میں سپریم کورٹ نے اختیار سماعت بڑھایا نہیں بلکہ تخلیق کیا، کیا بطور سپریم کورٹ ہم ایسا کر سکتے ہیں جس کا اختیار نہیں تھا۔بہرحال ماضی میں یہ دیکھنے کو ملا ہے ۔
کہ سپریم کورٹ کے چند چیف جسٹسز نے سپریم کورٹ کے اختیارات کو ذاتی طور پر استعمال کرکے سوموٹو لیے، مرضی کے بنچز بناکر بعض کیسز میں اپنی پسند کا فیصلہ دیا۔بہرحال یہ ایک غیر معمولی فیصلہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی عدالت نے کیا ہے اس سے پارلیمان کی مان بڑھ گئی ہے۔
اور عدلیہ اورپارلیمنٹ کے درمیان گزشتہ چند برسوں کے درمیان تناؤ دیکھنے کو ملاتھا اب وہ بھی زائل ہوجائے گا کیونکہ سپریم کورٹ کے اندرچند ایسے ججزموجود ہیں جو آئین وقانون کی بالادستی چاہتے ہیں اور ملک میں جمہوری نظام کو دستور کے تحت چلانے کے زبردست حامی ہیں۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اس بات سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ ایک جابر نے آئین میں ترمیم کی تو کوئی کچھ نہیں بولا، البتہ اگر پارلیمان نے سپریم کورٹ کے اختیارات کو وسیع کردیا اور اسے مضبوط کرنے کے حوالے سے ترمیم کی تواس پر اعتراض کے انبار لگا دئیے گئے جبکہ یہ ایک انتہائی خوش آئند بات ہے۔،
کہ فرد واحدکسی ادارہ کو اپنی مرضی سے نہیں چلائے گا بلکہ آئین وقانون کے تحت دیئے گئے اختیارات کو استعمال کرے گا۔ بہرحال سیاستدانوں پر بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ پارلیمان کو مزید مضبوط کرنے کے لیے اب حکومت میں آکر اپنی پسندیدہ شخصیات کو اداروں کے اہم عہدوں پر تعینات کرنے کے حوالے سے غیر قانونی طریقے نہیں اپنائینگے بلکہ میرٹ کو ترجیح دینگے جبکہ مزید پارلیمان کی مضبوطی کے لیے اپناکردار ادا کرینگے کیونکہ پارلیمان کی مضبوطی سے ہی ادارے مضبوط اورمستحکم ہونگے ۔ملک میں سیاسی استحکام اور معاشی ترقی کی راہ ہموار ہوگی جمہوریت کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ سیاسی استحکام اور ملکی ترقی کے حوالے سے نہیں ہے۔ سیاسی جماعتوں پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ کسی غیر آئینی عمل کا حصہ بننے سے گریز کرنے کے ساتھ مزاحمت بھی کریں۔ امید ہے کہ سیاستدان تمام اداروں کے ساتھ آئین کے تحت بہترین تعلقات اپنائینگے تاکہ چیلنجز کا مقابلہ مل کر کیاجاسکے۔ ماضی کو بھلاکر مستقبل کی طرف دیکھناضروری ہے جو ملکی حالات کا تقاضہ بھی ہے۔