|

وقتِ اشاعت :   October 13 – 2023

کوئٹہ: سینئر سیاست دان وسابق سینیٹر نوابزادہ حاجی میر لشکری خان رئیسانی نے کہا ہے کہ حکومت نے وڈھ تنازعے کے پرامن حل کیلئے نامزد ثالثین کو اعتماد میں لیے بغیر فیصلہ کیا ،

ہم انتظار میں تھے کہ جرگہ ممبران کا اجلاس طلب کیا جائیگا ، اپیکس کمیٹی نے فیصلہ کیا کہ چار روز میں مورچے ختم کردیئے جائیں ،یہ دوغلا پن ہماری سرزمین کیلئے انتہائی خطرنا ک ہے، بلوچستان کے طول وعرض میں جھگڑوں کی اہم وجہ صوبے میں جعلی پارٹیاں ، جعلی سیاسی و قبائلی قیادت بنا نا ہے،جعلی لوگوں کو بلوچستان کے مسائل سے نہیں ، یہاں کے وسائل سے دلچسپی ہے ،

اگر ریاست کی خواہش ہے کہ ثالثین بیٹھیں اور اس مسئلہ کو حل کریںتو حکومت کو آنے والے کل کی بدنامی سے بچنے کیلئے اپنے کردار کو واضح کرنا چائیے۔ یہ بات انہوں نے جمعہ کے روز سراوان ہائوس کوئٹہ میں صحافیوں کے وفد سے ملاقات میں گفتگو کرتے ہوئے کہی، نوابزادہ حاجی میر لشکری خان رئیسانی نے تاریخ حقائق اور واقعات کے پس منظر پر گفتگو کرتے ہوئے کہا

کہ اپنے وطن کے معاملات کا اختیارجب ہمارے پاس تھا تو جرگہ کی ایک قانونی حیثیت ہوا کرتی تھی اور اس کے ہی ذریعے مسائل حل ہوتے تھے کیونکہ ہمیں اپنا وطن اور قوم چائیے تھے تاہم اب قانون اور تھانہ دار کو قوم نہیں بنگلہ چائیے اس لیے فساد جتنا زیادہ ہو ان کیلئے فائدہ مند ہے.

انہوں نے کہاکہ ہماری قومی اکائی میں پارلیمنٹ سمیت کوئی بھی ایسا ادارہ نہیں جو اپنے متعین کردہ اصول ، روایات ، قانون اور رول آف بزنس کے مطابق چل رہا ہو قبائلی ادارہ جس کو جرگہ کہا جاتا ہے اس کوبھی کھنڈرات میں تبدیل کیا گیا ہے۔

ساتھ ہی صوبے میں جعلی پارٹیاں ، جعلی سیاسی و قبائلی قیادت بنا دی گئی ہے ان جعلی لوگوں کو بلوچستان کے مسائل سے نہیں یہاں کے وسائل سے دلچسپی ہے جس کے نتیجے میں آج صوبے کے طول وعرض میں فسادات ہورہے ہیں۔.

انہوںنے کہاکہ جب وڈھ میں دونوں فریقین کے درمیان کشیدگی میں اضافہ ہوا اسی روز چیف آف سراوان نواب محمد اسلم خان رئیسانی اور میں نے سردار اختر جان مینگل، سردار اسد جان مینگل ، میر نصیر مینگل اورمیر شفیق الرحمن مینگل سے ٹیلی فونک رابطے کرکے ان سے کشیدگی میں کمی لانے کا مطالبہ کیا.

اور دو روز بعد نواب محمد اسلم خان رئیسانی ایک مصالحتی وفد لیکر وڈھ پہنچے جہاں ہم نے دونوں فریقین سے ملاقات کرکے باقاعدہ جنگ بندی کراکے مسئلہ کے حل کیلئے اختیار طلب کیادوسری مرتبہ 28 جولائی کو ہم دوبارہ وڈھ گئے۔

کیوں کہ پہلی مرتبہ سردار اختر مینگل وڈھ میں موجود نہیں تھے دوبارہ ہم نے دونوں فریقین سے متعدد ملاقاتیں کیں اور پانچ روز تک وہاں قیام کیا سردار اختر جان مینگل نے مصالحت کیلئے ثالثین کو اپنا اختیار دیا تاکہ وہ معاملہ کو حل کریں تاہم میر شفیق الرحمن مینگل کی طرف سے ہمیں باضابطہ اختیار نہیں دیا گیا۔

اگر ہمیں باضابطہ اختیار دیا جاتا تو ہم مختلف امور کو دیکھتے ہوئے دونوں فریقین کے بیانات کو قلمبند کرتے اور اس سرزمین کی قدیم قبائلی روایات کے مطابق انصاف کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے اس مسئلہ کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے حل کرتے۔ انہوںنے کہاکہ ہمارے وڈھ سے کوئٹہ پہنچنے کے کچھ دن بعد جنگ کا باقاعدہ آغاز ہو اور قیمتی انسانی جانیں ضائع ہوئیں.

جو انتہائی افسوسناک ہے۔ انہوںنے کہاکہ چیف آف سراوان نواب محمد اسلم خان رئیسانی کی تاریخی حیثیت خان ثانی کی ہے ہماری ذمہ داریاں اور فرائض ہم کو یہ پابند کرتی ہیں کہ بلوچستان کے وسیع تر مفاد، آئندہ آنے والے دنوں میں قومی یکجہتی قومی نظم کو برقرار رکھنے کیلئے اپنا کردار ادا کرتے ہوئے خون ریزی کو روک کر رسم ورواج کے تحت دونوں بھائیوںکو شیر وشکر کریں اگر اس میں ہم ناکام ہوتے ہیں ۔

تو اس کا فیصلہ آئندہ آنے والی نسلیں کریں گی کہ کس نے کیوں اختیار نہیں دیا۔ انہوںنے کہاکہ نواب محمد اسلم خان رئیسانی اپنے علاج کی غرض سے کوئٹہ سے باہر تھے جمعہ کی صبح کو ہنگامی طور پراس خون ریزی اور سازش کو روکنے میں اپنا کردار ادا کرنے کوئٹہ پہنچے ہیں گزشتہ رو ز میرے اور سردار اختر جان مینگل کے درمیان ٹیلی فونک رابطہ بھی ہوا ہے۔

ساتھ ہی نواب محمد اسلم خان رئیسانی سے بھی وڈھ کے معاملہ پر غیر رسمی گفتگو ہوئی آج دوبارہ نواب محمداسلم خان رئیسانی کی سربراہی میں بیٹھ کر کوشش کریں گے کہ مزید کوئی بہت بڑا سانحہ پیش نہ آئے اور اس کوروکنے کیلئے ہم اپنا کردار ادا کریں گے۔۔

ایک سوال کے جواب میں انہوںنے کہاکہ منظم منصوبہ بندی کے تحت ان لوگوں کو حکومت میں لایا گیا ہے صوبے میں خون ریزی جن کے مفاد میں ہے وڈھ تنازعہ کے حل کیلئے سردار اختر جان مینگل نے مجھے اپنا ثالث مقرر کیا ہے اور میر شفیق الرحمن مینگل کی طر ف سے بھی ثالث مقرر کئے گئے ہیں اور چیف سیکرٹری بلوچستان نے باقاعدہ ہمیں جرگہ ممبران کو نوٹیفائی کیا ہے اہم اس انتظار میں تھے کہ تنازعہ کے پرا من کیلئے جرگہ ممبران کا اجلاس طلب کیا جائیگا۔

اور کچھ روز قبل اچانک ایک روز پہلے مجھے اطلاع دی گئی کہ کل خضدار میں اجلاس طلب کیا گیا ہے اس کے بعدہم انتظار میں تھے کہ کمشنرقلات ڈویڑن دوبارہ اجلاس طلب کرکے ہمیں مطلع کریگا۔ تاہم اس دوران کوئٹہ میں اپیکس کمیٹی کے اجلاس میں فیصلہ کیا گیا۔

کہ مورچے ختم کئے جائیں گے اس کا مطلب ریاست کہتی کچھ اور کرتی کچھ ہے اور ان کا ہدف کچھ اور ہے خون ریزی روکنا نہیں جب ہم کو ریاست نے نوٹیفائی کیا ہے تو پھر یہ ضرورت تھی کہ اپیکس کمیٹی یا جرگہ ممبران سے پوچھتی اور ہم کو وقت دیتی تاکہ ہم یہ معاملات حل کرتے جرگہ ممبر ثالث ہم کو رکھتے ہیں۔

اور فیصلہ اپیکس کمیٹی کرتی ہے یہ دوغلا پن ہماری اس سرزمین کیلئے انتہائی خطرنا ک ہے۔ اس ملک کے تاریخی پس منظر اور واقعات کو دیکھائے جائے کہ نواب نوروز خان کو قرآن پر اتار کر پابند سلاسل کیا گیا ،

آغا عبدالکریم کو ہری پور کے جیل میں سالوں قید رکھا گیانواب اکبر خان بگٹی سے مذاکرات کے بعد ڈیرہ بگٹی میں آپریشن کیا گیا ایسے میں بی این پی کے خدشات بالکل درست ہیںاگر پھر ریاست کی خواہش ہے کہ ثالثین بیٹھیں اور اس مسئلہ کو حل کریںتو آج کی حکومت کو آنے والے کل کی بدنامی سے بچنے کیلئے اپنے کردار کو واضح کرنا چائیے ۔