مسلم لیگ ن کی جانب سے نواز شریف کی آمد کے حوالے سے تیاریاں جاری ہیں ،
ن لیگی رہنماء ہر اجتماع اورتقریب میں یہ باتیں کررہے ہیں .
کہ میاںمحمدنواز شریف کی آمدسے ملک میں معاشی انقلاب برپاہوگا، فیکٹریاں لگیں گی،
روزگار کے مواقع پیدا ہونگے، مہنگائی کا خاتمہ ہوگا، پاکستان قرضوں سے نجات حاصل کرلے گا۔لیکن روڈ میپ کیا ہے اور کس طرح سے ترقی لائی جائے گی یہ تمام تر دعوے زمینی حقائق کے مکمل برعکس ہیں بالکل اسی طرح جب ماضی میں حکومت کرنے والی جماعتوں کے رہنماؤں نے اپنی حکومت کی آمد پر یہ دعوے کئے تھے مگر حکومت سنبھالتے ہی انہیں آئی ایم ایف کے پاس جاناپڑا اور عوام کو بتانا پڑا کہ پرانے قرض اتارنے کے لیے وہ نئے قرض لے رہے ہیں۔ان کی حکومتوں کے بعد ترقی کی شرح نمو کہاں پر ہے.
یہ سب کے سامنے ہے۔ ستر سال سے زائدعرصہ گزرنے کے باوجود بھی ہماری معیشت لنگڑاتی ہوئی چل رہی ہے۔ ملک قرضوں میں ڈوبا ہوا ہے معاشی تنزلی اپنی جگہ موجود ہے، بیروزگاری اور مہنگائی عروج پر ہے ، روپے اور ڈالر کے درمیان فرق بہت زیادہ ہے، پی ڈی ایم حکومت میں وزیراعظم میاںمحمدشہبازشریف تھے جبکہ وزیرخزانہ پہلے مفتاح اسماعیل کو بنایاگیا پھر اس کے بعد اسحاق ڈار کو یہ منصب اس بنیاد پر دیاگیا کہ یہی وزیرخزانہ ہیں جوملکی معاشی ترقی کے لیے کلیدی کردار ادا کرینگے ،
پھر اس کے بعد کے حالات سب کے سامنے ہیں کہ گزشتہ ڈیڑھ سالہ دور میں معاشی ترقی کس حد تک ہوئی، مہنگائی کی شرح کتنی رہی، قرض کتنے لئے گئے اور اس کے بعد ایک بحرانی کیفیت پیداہوگئی ۔
اگر ن لیگ کے پاس ایک مکمل معاشی روڈ میپ پہلے سے موجود ہے تو شہباز شریف ہی کم ازکم ڈیڑھ سال کے دوران معیشت کی بہتری کے لیے انقلابی اقدامات کرتے اور آج اس کے ثمرات عوام کو ملتے۔ ن لیگ کی جانب سے نواز شریف کی آمد پر لاہور میں بہت بڑا جلسہ کیاجائے گا یقینا اس جلسے میں ن لیگ کے ہی کارکنان ہونگے اور ملک بھر سے انہیں لایا جائے گا اگر جلسہ گاہ بھر جائے گا تو یہ بڑی خبرنہیں بنتی اتنے وسائل اور مہم کے باوجود بھی جلسہ گاہ نہ بھرجائے.
تو یہ بڑی خبر بن سکتی ہے۔ بہرحال یہ صرف ن لیگ کے حوالے سے نہیں ہے بلکہ ہر جماعت یہی باتیں کررہی ہے کہ وہ اگر حکومت میں آئی تو ملک سے کرپشن کا خاتمہ کرے گی، معاشی نظام کو بہتر بنانے کے لیے ٹیکس کا بہترین نظام رائج کرے گی ، عوام کو مہنگائی، بیروزگاری، بجلی، گیس سمیت دیگر بحرانات سے نکالنے کے لیے بڑے اقدامات اٹھائے گی۔ حکومت سنبھالنے کے بعد جب معاشی حالات بہتر نہیں ہوتے تو ساراملبہ ماضی کی حکومتوں پر یہ کہہ کر ڈال دیاجاتا ہے .
کہ اتنے قرض لیے گئے ہیںاور ایسی پالیسیاں بنائی گئیں ہیں کہ ہمیں ان کو ٹھیک کرنے کے لیے بہت وقت درکار ہے یعنی اپنی مدت پوری کرنی ہے اس کے بعد چلتا بننا ہے پھر وہی پرانی باتیں دہرائی جاتی ہیں۔ اس وقت ملک میں سب سے پہلے ٹیکس نظام کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے،
معاشی اصلاحات لانے کی ضرورت ہے، بیرونی سرمایہ کاری اور اپنی پیداواری صلاحیت کو بڑھانے کی ضرورت ہے، اپنی معدنیات کے ذریعے غیرملکی سرمایہ کاروں کو اپنی طرف لانے کی ضرورت ہے..
لیکن اس تمام عمل کے لیے میرٹ کی بنیاد پر وزارت سے لیکر نچلی سطح تک عہدے دینے پڑینگے مگر ہمارے یہاں روایات سب کے سامنے ہیں کہ من پسند افراد کو وزارتیں اور عہدے دیئے جاتے ہیں جب تک یہ کلچر موجود رہے گا ملک ترقی نہیں کرے گا اصلاحات کے ساتھ سیاسی جماعتوں کے اندر بھی تبدیلی کی بڑی ضرورت ہے۔ خدا کرے کہ ایسا ہو تاکہ ملکی حالات بہتر ہوں اور عوام روز روز کے بحرانات اور مصیبتوںسے چھٹکارا حاصل کرسکیں۔