بلوچستان ملک کا نصف حصہ ہے مگر بدقسمتی سے آج بھی یہ خطہ بنیادی سہولیات سے مکمل محروم ہے۔
باوجود اسکے کہ یہاں وسائل بہت زیادہ ہیں اور ان وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے منافع بھی لیاجارہا ہے مگر یہ رقم وفاق اور کمپنیوں کو مل رہی ہے بلوچستان کو بمشکل دوفیصدحصہ اپنے وسائل سے ملتا ہے۔ اتنی قلیل رقم سے کیسے بلوچستان ترقی کرسکتا ہے ، اگر بلوچستان کے وسائل پر جائز حق دیاجاتا تو آج بلوچستان ملک کا سب سے ترقی یافتہ خطہ ہوتا۔ بلوچستان اپنے سمندری اور زمینی جغرافیہ کے حوالے سے معاشی اہمیت کا حامل ہے،۔
سینٹرل ایشیاء، مشرق وسطیٰ کوان سے منسلک کرکے تجارت کو فروغ دیاجاسکتا ہے مگر ایسے ہنگامی اقدامات نہیں اٹھائے گئے اور نہ پالیسیاں بنائی گئیں جن سے بلوچستان فائدہ اٹھاسکتا۔ بلوچستان میں ہر ترقیاتی منصوبہ وفاق کی توجہ اورفنڈز کا محتاج ہوتا ہے۔ گزشتہ روز نگران وزیر اعلیٰ بلوچستان میر علی مردان خان ڈومکی سے نگران وفاقی وزیر تعلیم مدد علی سندھی نے ملاقات کی
اور وفاقی حکومت کے تعاون سے بلوچستان کے تعلیمی اور فنی تعلیم کے مخصوص اداروں میں جاری پروگرامز سے آگاہ کیا،نگران وزیر اعلیٰ بلوچستان میر علی مردان خان ڈومکی نے وفاقی وزارت تعلیم کی جانب سے بلوچستان میں جاری منصوبوں کو سراہتے ہوئے کہا کہ وفاقی حکومت کے تعاون سے بلوچستان میں جدید فنی تعلیم کے اداروں کو فعال کریں گے ۔
اس مقصد کے لئے عالمی و قومی مارکیٹ کی مانگ کے مطابق تربیت یافتہ افرادی قوت پیدا کرنے کے لئے بلوچستان میں اداروں کی استعداد کار میں اضافہ کیا جارہا ہے اور فنی تربیت کی فراہمی کے لئے بلوچستان میں قائم اداروں کو فعال بنایا جارہا ہے۔
نگران وزیر اعلیٰ بلوچستان نے کہا کہ دور جدید کے تقاضوں کے مطابق فنی تعلیمی اداروں کے معیار کو قابل بھروسہ بنا کر ان کی ساکھ بہتر بنائی جائے تو خاطر خواہ نتائج حاصل ہوسکتے ہیں ۔ میر علی مردان خان ڈومکی نے نگران وفاقی وزیر کو صوبائی حکومت کی جانب سے اپنے ہر ممکن تعاون کا یقین دلاتے ہوئے بلوچستان سمیت ملک بھر میں معیار تعلیم کی بہتری اور فنی تعلیم کے فروغ کے لیے اٹھائے جانے والے اقدامات کو سراہا۔ نگران وفاقی وزیر تعلیم مدد علی سندھی کاکہناتھاکہ
وفاقی اداروں کے انتظامی امور میں بلوچستان سمیت تمام صوبوں کی نمائندگی یقینی بنائی جائے گی نرسنگ اور کلچر کے لئے بلوچستان کے لیے 117 ملین روپے رکھے گئے ہیں ۔
ان وظائف کی میرٹ پر تقسیم کو یقینی بنایا جائے گا۔ بلوچستان کی جامعات کو درپیش مسائل کے حل کے لیے چیئرمین ہائیر ایجوکیشن کمیشن سے نتیجہ خیز بات کی جائے گی اور جامعات کے مسائل ترجیحی بنیادوں پر حل کئے جائیں گے۔بلوچستان سمیت چاروں صوبوں کے نگران وزراء پر مشتمل اعلیٰ سطحی کمیٹی تعلیم اور فنی تربیت سے متعلق امور کو بار آور بنائے گی اور باہمی مشاورت سے پاکستان کے نظام تعلیم کو ایک ایسی سمت کی جانب گامزن کریں گے۔
جہاں یہ نوجوانوں کے بہتر مستقبل کی ضمانت ثابت ہو۔ بہرحال نگراں وزیراعلیٰ بلوچستان اور نگراں وفاقی وزیرکی نیک خواہشات اور بلوچستان میں جدیدوفنی تعلیم کے حوالے سے بہتراقدامات قابل ستائش ہیں مگر بنیادی بات یہی ہے کہ بلوچستان کو خود مختار بناکر اسے اپنے وسائل سے جائز حصہ دیتے ہوئے پالیسیاں بنانے کا اختیار دیاجائے تاکہ وہ بہترین منصوبے اپنے محاصل سے بناسکے۔ اگر بلوچستان کے اپنے نمائندے کوتاہی اور غفلت کا مظاہرہ کرینگے تو یقینا ان پر تنقید ہوگی چونکہ اب بلوچستان کے بیشتر میگامنصوبے وفاق کے تحت چل رہے ہیں۔
تو وفاقی حکومتوں پر ہی تنقید کی جاتی ہے کہ ستر سال سے زائد عرصے کے دوران بلوچستان میں وہ ترقیاتی کام نہیں ہوئے جو ہونے چاہئیں تھے۔ آج پنجاب، سندھ، کے پی ترقی کے لحاظ سے بہت آگے نکل چکے ہیں جبکہ بلوچستان میں شاہراہیں اور مواصلات کا نظام تک موجود نہیں جبکہ دیگر صوبوں میں ٹرانسپورٹ اور ریلوے کے بڑے بڑے منصوبے چل رہے ہیں ۔ضروری ہے کہ بلوچستان کو اہمیت دی جائے اور یہ کام اب آنے والی وفاقی حکومت کا ہے کہ وہ بلوچستان کو کتنی اہمیت دے گا ؟