ملک میں مہنگائی کے ستائے عوام پر مزید بوجھ لاددیاگیاہے،
گیس کی قیمتوں میں اس وقت اضافہ کیا گیا جب گیس کا استعمال عوام زیادہ کرتے ہیں، خاص کر سرد علاقوں میں گیس کے بغیر گزارا ممکن نہیں ۔ بلوچستان میں تو گیس مکمل طور پر غائب رہتی ہے شدید سردی کے دوران شہری لکڑیوں کا استعمال کرتے ہیں
حالانکہ گیس بلوچستان سے نکلتی ہے مگر یہ بلوچستان کے عوام کو میسر نہیں ہے۔ بلوچستان کے اکثر علاقوں میں گیس کنکشن تک نہیں ہے شہری علاقوں میں گیس سلینڈر استعمال کیاجاتا ہے دیہی علاقوں میں لکڑیوں کا استعمال کیا جاتا ہے تاکہ سرد موسم کے دوران معمولات زندگی متاثر نہ ہوں
اور بیماریوںسے بھی بچا جاسکے ۔ دہائیاں بیت گئیںبلوچستان کے گیس کا مسئلہ حل نہیںہوا ،سوئی گیس کی مد میں اربوں روپے کے واجبات اب تک وفاق کے ذمہ ہیںجو ادا نہیں کئے جارہے ۔ بلوچستان میں بنیادی سہولیات تو پہلے سے ہی موجود نہیں ہیں تمام تر وسائل رکھنے والاخطہ محرومی وپسماندگی کا شکار ہے مسائل حل کرنے سے متعلق حکمرانوں کے بڑے بڑے دعوے روز سننے کو ملتے ہیں مگر عملاََ بلوچستان میں معاملات اس کے برعکس دکھائی دیتے ہیں۔
بہرحال کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی (ای سی سی) نے گیس کی قیمتوں میں 194 فیصد تک کے نمایاں اضافے کی منظوری دے دی، جس کا اطلاق یکم نومبر سے ہوگا۔ رپورٹ کے مطابق اس کے علاوہ صارفین ماہانہ فکسڈ چارجز کی مد میں 3900 فیصد کا غیر معمولی اضافہ بھی دیکھیں گے، نگران وزیر خزانہ شمشاد اختر نے ای سی سی کا اجلاس طلب کیا،
جہاں پیٹرولیم ڈویژن کی جانب سے تمام شعبوں کے لیے گیس کی قیمتوں میں خاطر خواہ اضافے کی تجویز کی منظوری دی گئی۔سمری کے مطابق گیس کی قیمتوں میں نظرثانی یکم جولائی 2022 سے ہونی تھی، تاہم مسلم لیگ (ن) کی زیر سربراہی اتحادی حکومت نے اس فیصلے کو مؤخر کر کے اس حساس معاملے کو نگران حکومت کے لیے چھوڑ دیا تھا،
ایس ایس جی سی اور ایس این جی پی ایل پہلے ہی جولائی تا ستمبر کے دوران 46 ارب روپے کا خسارہ رپورٹ کر چکی ہیں۔
پروٹیکٹڈ گھریلو صارفین کے لیے بھی ماہانہ فکسڈ چارجز 10 روپے سے بڑھا کر 400 روپے کر دئیے گئے ہیں، دیگر گھریلو صارفین کے لیے دو مختلف سلیبز بنائے گئے ہیں،
پہلی کیٹیگری میں 1.5 ایچ ایم 3 تک گیس استعمال کرنے والوں کے لیے فکسڈ چارجز 460 روپے سے بڑھا کر ایک ہزار روپے کر دیے گئے ہیں، دوسری کیٹیگری میں 1.5 ایچ ایم 3 سے زائد استعمال کرنے والے صارفین کے چارجز 460 روپے سے بڑھا کر 2000 روپے کر دیے گئے ہیں۔اب گیس کی قیمتوں میں اتنے بڑے پیمانے پر اضافہ اور گیس کی عدم فراہمی سراسر عوام کے ساتھ زیادتی ہے۔
موجودہ حالات میں ہونا تو یہ چاہئے تھاکہ عوام کو ریلیف ملتا کیونکہ جس طرح کی مہنگائی کا سامنا غریب لوگ کررہے ہیں انہیں سہولیات فراہم کی جاتیں مگر موسم سرماکی آمد کے ساتھ ہی گیس کی قیمتوں میںاضافے سے عوام میں شدید غم وغصہ پایاجاتا ہے،
اس کی وجہ گیس کی عدم فراہمی اور بھاری بھرکم بل ہیں ۔ ملک کے تقریباََ بیشتر صوبوں کے علاقوں کی صورتحال اسی طرح ہے کہ انہیں مستقل گیس فراہم نہیں کی جارہی اب تو لوگوں نے گھروں میں چولہاجلانے کے لیے گیس سلینڈر کا استعمال شروع کردیا ہے جبکہ رات کے اوقات میںبھی سردی کی وجہ سے سلینڈرکا استعمال کیا جاتا ہے
جو ان کی زندگی کے لیے خطرناک ثابت ہوتا ہے،اس حوالے سے مختلف حادثات رونما ہوچکی ہیں جانیںبھی جاچکی ہیں۔ عوام کو گیس کی فراہمی تو یقینی بنائی جائے اور بلوچستان میں جہاں گیس کنکشن اور پائپ لائن نہیں بچھائی گئی ہے
وہاں یہ سہولت تو میسر کی جائے ۔ عوام تو مطالبات کرتے رہیں گے اب نگراں حکومت کے بعد آنے والی منتخب حکومت عوام کی داد رسی کرے گی یا پھرعام انتخابات کے مہم دوران محض دعوے کرنے کے بعد اپنے وعدوں کی تکمیل کرینگے یا نہیں یہ حکومتی تشکیل کے بعد ہی واضح ہوجائے گا۔