بلوچستان ایک وسیع خطہ ہے
اور منتشر آبادی پر پھیلا ہوا ہے۔
ایک ضلع سے دوسرے ضلع کا سفر طویل ہوتا ہے
شاہراہیں تباہ حال ہیں مقامی کوچز کئی گھنٹوں بعد مسافروں کو منزل تک پہنچاتی ہیں جبکہ کرایہ بھی بہت زیادہ لیاجاتا ہے، سفر کے دوران شہریوں کو بہت سارے مسائل کا سامنا کرناپڑتا ہے کیونکہ شاہراہیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں
جبکہ آئے روز کے حادثات بھی لوگوں کیلئے بہت زیادہ خطرناک ثابت ہوتی ہیں۔ بلوچستان میں اگر اندرون صوبہ سفر کے لیے ریلوے نظام کو چلایاجائے تو اس سے عوام کو بہت زیادہ سفری فائدہ پہنچے گا جبکہ ریلوے محکمہ جو خسارے میں ہے اس کی آمدن بھی بڑھے گی
اور بلوچستان حکومت کو بھی مالی فائدہ پہنچے گا۔ اگرکوئٹہ شہر کی بات کی جائے تو ٹریفک کا دباؤ اتنا بڑھ چکا ہے کہ اب تو کوئٹہ کی شاہراہوں پر گاڑیوں کا چلنا بھی محال ہوکر رہ گیا ہے ایک تو گاڑیوں کی تعداد زیادہ ہے
اور شاہراہیں کم ہیں، انڈرپاسز نہیں، پُل نہیں، لنک شاہراہیں نہیں جو ہزار گنجی سے لیکر کوئٹہ کے مرکز تک باآسانی لوگ سفر کرکے پہنچ سکیں اس کے لیے کوئٹہ کے اندر بھی ٹرام طرز پر چھوٹے ٹرین چلائے جائیں تو آلودگی کے خاتمے کے ساتھ لوگوں کو بہت زیادہ سفر کے دوران سہولیات میسر آئینگی۔
بلوچستان کے دیگر اضلاع میں ٹرین چلانے سے لوگوں کو سستی سفری سہولیات تو میسر آئینگی جبکہ روزانہ بڑی تعداد میں کوئٹہ شہر میں سینکڑوں مریض علاج کی غرض سے آتے ہیں
مگر شاہراہوں کی ابتر صورتحال کی وجہ سے انہیں مشکلات درپیش ہوتی ہیںاگر بلوچستان میں بہترین ریلوے نظام بنایاجائے تو اس سے عوام کے بہت سارے مسائل حل ہونگے ۔بہرحال یہ خوش آئند بات ہے
کہ بلوچستان میں سبی ہرنائی ٹرین سروس 18 سال بعد بحال ہو گئی ہے۔ سبی ہرنائی ٹرین سروس کی بحالی کے لیے سبی ریلوے اسٹیشن پر افتتاحی تقریب کا انعقاد کیا گیا، نگران وزیر اعلیٰ بلوچستان اور نگران وفاقی وزیر ریلوے شاہد اشرف تارڑ نے افتتاح کیا۔سبی تا ہرنائی ٹرین سروس بحالی کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے نگراں وزیرِ اعلیٰ بلوچستان علی مردان ڈومکی نے کہا کہ طویل مدت سے بند سبی، ہرنائی سیکشن کو دوبارہ سے کھولا جارہا ہے۔
نگران وزیر اعلیٰ بلوچستان کا کہنا تھا کہ یہ ریلوے ٹریک فروری 2006 میں بند ہوا تھا، ٹرین سروس کی بحالی سے روزگار کے مواقع بڑھیں گے، ریلوے سروس سے مریضوں کو بروقت بڑے شہروں میں جانے کی آسانی ہوگی۔
انہوں نے کہا کہ 25 دسمبر کو بولان میل بھی بحال کر دی جائے گی، دوسرے مرحلے میں نواب اکبر خان بگٹی ایکسپریس بحال کی جائیگی، بلوچستان سے مال بردار ٹرینیں بھی چلیں گی۔ بہرحال بند ٹرین چلانے کافیصلہ خوش آئند ہے
مگر اس کے ساتھ ہی دیگر اضلاع میں سفر کے لیے ٹرین نظام ناگزیر ہے اس کے لیے ایک پالیسی مکمل بنانا چاہئے یقینا خطیر رقم بھی اس پر لگے گی مگر بلوچستان جیسے بڑے صوبے کے مسائل کو حل کرنا وفاقی حکومت کی ذمہ داری ہے ۔
امید کرتے ہیں کہ بلوچستان میں ریلوے نظام کے ذریعے عوام کو بہترین اور سستی سفری سہولیات فراہم کرنے کے حوالے سے آئندہ عام انتخابات میں جوصوبائی حکومت بلوچستان میں بنے گی اسے ترجیح دے گی اور وفاقی حکومت کو اعتماد میں لیتے ہوئے اس گریٹ منصوبے کے لیے بات چیت کرے گی اور وفاقی حکومت کی جانب سے بھی سنجیدگی کے ساتھ اس منصوبے کے حوالے سے پیشرفت ضروری ہے تاکہ بلوچستان کے پہاڑ نما مسائل میں کچھ تو کمی آسکے۔