عالمی ادارہ برائے صحت نے غزہ میں بیماریاں پھیلنے کا خدشہ ظاہر کیا ہے۔
غیر ملکی میڈیا کے مطابق غزہ کی پٹی پر اسرائیلی جارحیت کی وجہ سے فلسطینیوں میں بیماریاں پھیلنے کا سنگین خطرہ ہے۔
ڈبلیو ایچ او کے مطابق اسرائیلی بمباری کی وجہ سے صحت کا نظام تباہ ہوگیا ہے، پناہ کیلئے نہ کوئی چھت ہے اور نہ ہی فلسطینیوں کیلئے صاف پانی تک رسائی ممکن ہے جس وجہ سے مختلف انفیکشن پھیلنے کا خطرہ ہے جس میں پیٹ کی خرابی جیسے مسائل شامل ہیں۔ڈبلیو ایچ او نے کہا ہے کہ اکتوبر کے وسط سے ڈائیریا کے 33ہزار551 سے زیادہ کیسز رپورٹ ہوئے ہیں، یہ کیسز زیادہ تر 5 سال سے کم عمر کے بچوں میں دیکھے گئے ہیں۔
ڈبلیو ایچ و کے مطابق متاثرہ بچوں کی تعداد میں 2021 اور 2022 کے دوران ماہانہ اوسطاً 2 ہزار کیسز کے مقابلے میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ڈبلیو ایچ او کا کہنا ہے کہ اسرائیلی جارحیت کی وجہ سے کھانا، پانی اور ادویات کی بہت کم ترسیل ہوئی ہے۔دوسری جانب اقوام متحدہ نے کہا ہے کہ غزہ میں صحت، نکاسی آب،
صاف پانی اور خوراک جیسی بنیادی سہولیات دستیاب نہیں اور مکمل نظام منہدم ہونے کے قریب ہے۔
واضح رہے کہ غزہ پر اسرائیلی جارحیت کا سلسلہ جاری ہے جس کے دوران اب تک 10 ہزار سے زائد فلسطینی شہید ہوچکے ہیں جن میں 4324 بچے بھی شامل ہیں۔دوسری جانب امریکا اور اسرائیل نے غزہ پر حملوں میں روزانہ 4 گھنٹے کے وقفے پر اتفاق کیا ہے تاکہ جنگ زدہ علاقے سے لوگوں کا محفوظ انخلاء ہوسکے۔
امریکی صدارتی دفتر وائٹ ہاؤس کے مطابق غزہ کے لوگوں کو 2 انسانی راہداریاں فراہم کی جائیں گی، اسرائیل نے یقین دہانی کرائی ہے کہ وقفے کے دوران کوئی فوجی کارروائی نہیں کرے گا، شمالی غزہ میں روزانہ 4 گھنٹے کے وقفے پر عمل درآمد ہوگا۔وائٹ ہاؤس کا کہنا ہے کہ غزہ میں ضرورت کے مطابق یہ وقفے روزانہ کی بنیادوں پر چاہتے ہیں، ا
سرائیل کم از کم تین گھنٹے پہلے وقفے کا اعلان کرے گا۔وائٹ ہاؤس کے قومی سلامتی کے ترجمان جان کربی کا کہنا ہے کہ غزہ میں یہ وقفے درست سمت کی جانب قدم ہے، غزہ میں مزید امدادی ٹرک جانے کی ضرورت ہے، روزانہ 150 امدادی ٹرک بھیجنا چاہتے ہیں۔
جان کربی کا کہنا ہے کہ امریکا اس وقت حماس اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی کا حامی نہیں کیونکہ اس سے حماس نے جو کچھ 7 اکتوبر کو کیا تھا، اسے کرنے کی چھوٹ مل جائیگی۔
اسماعیل ہنیہ کے ترجمان نے اس بات کی تردید کی ہے کہ اسرائیل کے ساتھ جنگ بندی کا کسی قسم کا معاہدہ طے پایا ہے۔
اسماعیل ہنیہ کے ترجمان کا کہنا تھا کہ ابھی بات چیت جاری ہے اور کوئی معاہدہ نہیں ہوا، اگر کوئی معاہدہ طے پایا تو اس کا واضح طور پر اعلان کیا جائے گا۔
اگر اس وقت اسرائیل کی جارحانہ پالیسی پر نظر دوڑائی جائے تو واضح ہوجاتا ہے کہ اسرائیل کسی صورت جنگ بندی نہیں چاہتا جبکہ امریکہ نے بھی کھل کر یہ اعلان کردیا ہے کہ ہم جنگ بندی کے حامی نہیں ہیں یہ انسانی حقوق کے تحفظ کے حوالے سے امریکہ کے کردار پر بہت بڑاسوالیہ نشان ہے جو امریکہ دنیا بھر میں قیام امن کا داعی بن کر مداخلت کرتی ہے اب کھل کر اسرائیلی جارحیت کی حمایت کررہا ہے اس سے واضح ہوتا ہے کہ طاقتور قوتوں کے مفادات یکساں ہیں جبکہ مغربی دنیا کی بھی مجرمانہ خاموشی بھی سوالیہ نشان ہے، روس اور یوکرین کے درمیان جنگ ہوئی تو سب کو انسانی حقوق کی پامالی یاد آگئی اور ایک پیج پرآکر یوکرین کی حمایت کرنے لگے مگر افسوس فلسطین کے نہتے خواتین، بچے اور عوام ان طاقتوں کو دکھائی نہیں دے رہے ہیں جن پر اسرائیلی قابض فوج وحشیانہ حملے کررہی ہے۔ تاریخ کبھی اس عمل کو نہیں بھلائے گی۔