بلوچستان بڑی سیاسی جماعتوں کا مرکز بن گیا ہے،
پاکستان پیپلزپارٹی کی جانب سے 30نومبر کو یوم تاسیس منانے کااعلان کیا گیا ہے اور بھرپور عوامی طاقت کا مظاہرہ کرنے کے ساتھ انتخابی مہم کا آغاز بھی بلوچستان سے کیاجارہا ہے، بلوچستان سے تعلق رکھنے والے پیپلزپارٹی کے رہنماء مکمل پُرامید دکھائی دے رہے ہیں کہ وہ بلوچستان سے کلین سوئپ کرینگے
اور بھاری اکثریت لینگے، بلاول ہاؤس میں چیئرمین پاکستان پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری سے ملاقات کے بعد پریس کانفرنس کے دوران نواب ثناء اللہ خان زہری اور جنرل (ر) عبدالقادر بلوچ کا کہنا تھا کہ کم ازکم سادہ اکثریت تو ہماری جماعت لے گی اورہم مخلوط حکومت بنائینگے،
پیپلزپارٹی کے چیئرمین کا یوم تاسیس کوئٹہ میں منانے کااعلان کرتے ہوئے کہنا تھا کہ بلوچستان پیکج سمیت دیگر اہم منصوبے بلوچستان کو ہماری جماعت نے دیئے، ہماری جماعت بلوچستان کی ترقی کے لیے کوشاں ہے۔ بہرحال یوم تاسیس سے قبل اور اس روز بھی دیگر اہم شخصیات کی پاکستان پیپلزپارٹی میں شمولیت متوقع ہے۔
دوسری جانب ن لیگ نے بھی کوئٹہ میں ڈیرے ڈال دیئے ہیں،سربراہ ن لیگ میاں محمد نواز شریف خود کوئٹہ کے دورہ پر ہیں
اور اہم سیاسی شخصیات سے ملاقاتیں کررہے ہیں۔ سابق وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان نے ن لیگ میں شمولیت اختیار کرلی ہے
حالانکہ جام کمال خان کی دوبار پاکستان پیپلزپارٹی کے قائدین سے ملاقات ہوچکی تھی پہلے وہ صدر پیپلزپارٹی آصف علی زرداری سے ملے،پھرچند روز قبل انہوں نے چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری سے بھی ملاقات کی مگر بات بن نہیں پائی جس کی شاید ایک اہم وجہ یہ بھی ہے کہ جام کمال خان وزیراعلیٰ کے امیدوار ہیں اور اسی بنیاد پر بات نہیں بنی
چونکہ پاکستان پیپلزپارٹی کے پاس مضبوط امیدوار کے طورپر نواب ثناء اللہ خان زہری بھی ہیں جو سابقہ ن لیگ کے دورحکومت میں وزیراعلیٰ رہ چکے ہیں
جبکہ جام کمال خان بھی پہلے ن لیگ ہی میں تھے اوروہ وفاقی وزیرمملکت برائے پیٹرولیم رہے جس کے بعد انہوں نے ن لیگ سے وابستگی ختم کرکے باپ پارٹی میں شمولیت اختیار کرلی
اور اس کے صدر منتخب ہوئے۔ باپ پارٹی نے 2018ء میں مخلوط حکومت بنائی اور جام کمال خان وزیراعلیٰ بلوچستان بنے مگروہ اپنی مدت مکمل نہیں کرپائے، ان کی اپنی جماعت کے وزراء نے اپوزیشن کے ساتھ ملکر ان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لائی
اور اس طرح جام کمال خان کی چھٹی ہوگئی۔ اسی طرح نواب ثناء اللہ خان زہری کے خلاف بھی ان کی جماعت کے سرکردہ رہنماؤں نے دیگرجماعتوں کے ساتھ ملکر عدم اعتماد کی تحریک لائی اور نواب ثناء اللہ کے ہاتھوں سے وزارت اعلیٰ کا منصب چلاگیا۔ بہرحال اب جو شمولیت ن لیگ میں ہورہی ہے یہ کوئی انوکھی اور اچنبھے کی بات نہیں کہ بلوچستان کی اہم شخصیات ن لیگ میں شامل ہورہے ہیں کیونکہ ماضی میں بھی انہی شخصیات کا تعلق ن لیگ سے رہا ہے۔
اب تو بلوچستان سیاسی حوالے سے بڑی جماعتوں کامحور بن چکا ہے یہ اچھی بات ہے کہ بلوچستان کو ترجیح دی جارہی ہے سیاسی گہما گہمی عروج پر ہے مگر ساتھ میں جو وعدے اب بلوچستان کے عوام کے ساتھ کئے جارہے ہیں
کہ اگر وہ مرکز اور صوبے میں حکومت بنائینگے تو بلوچستان میں ترقی کی رفتار اسی طرح تیز کرینگے جیسے پنجاب، سندھ میں ریکارڈ ترقیاتی کام ہوئے ہیں، محض سیاسی ڈھال کے طور پر بلوچستان کو استعمال کرنا زیادتی ہوگی
بلوچستان ہمیشہ مرکز کی توجہ کا طلبگار رہا ہے کہ یہاں محرومیاں اور پسماندگی بہت زیادہ ہے، بنیادی سہولیات تک موجود نہیں۔ امید ہے کہ بلوچستان کو سیاسی حوالے سے جس طرح اہمیت دی جارہی ہے معاشی ترقی کے حوالے سے بھی بلوچستان ان کی ترجیحات میں شامل رہے گا۔