بلوچستان میں میاں محمدنواز شریف کے دورے کو بہت زیادہ اہمیت دی جارہی ہے
اور اسے کامیابی سے نتھی کیاجارہا ہے۔ایک ایسا ماحول دکھایاجارہا ہے
کہ الیکشن سے قبل ہی بلوچستان میں ن لیگ نے معرکہ مار لیا ہے۔لیکن ہنوز ”دہلی دور است“ کتنے تعجب کی بات ہے کہ ن لیگ کی حکومت جتنی بار بھی بلوچستان میں گرائی گئی اس میں بیشتر انہی اراکین کی شراکت داری رہی ہے جنہوں نے ن لیگ میں شمولیت اختیار کی ہے۔
سرداراخترجان مینگل سے لے کر نواب ثناء اللہ خان زہری کی حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا انہی سیاسی شخصیات میں سے بیشتر اراکین اسمبلی تھے
جنہوں نے عدم اعتماد کی تحریک پیش کی اور باپ سے ملاپ کا معاملہ بھی انتہائی حیرت انگیز ہے کہ ن لیگ کے چیف آرگنائزر نے باپ کے متعلق جو باتیں دورہ کوئٹہ کے دوران جلسہ میں کی تھیں وہ ریکارڈ پر موجود ہیں جبکہ جام کمال خان سمیت دیگرسابقہ ن لیگی اراکین بلوچستان اسمبلی نے مسلم لیگ ن اور نواز شریف کے متعلق بلوچستان مسائل پر سخت گیر مؤقف بھی ریکارڈ کا حصہ ہیں۔ بہرحال اب بلوچستان میں ن لیگ کے قائدین کے ڈیرے ڈالنے کی بنیادی وجوہات کاجاننا انتہائی ضروری ہے کہ ن لیگ نے پنجاب کی بجائے اب بلوچستان اور سندھ کو سیاست کا محور ومرکز کیوں بنالیا ہے
یہاں سے وہ کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں یہ بنیادی سوال ہے۔ اس معاملے کو تجزیاتی طور پر لیتے ہوئے کہنا ہوگا کہ پنجاب میں شایدن لیگ کو یہ خطرہ لاحق ہے کہ انہیں قومی اسمبلی کی اتنی نشستیں نہیں مل سکیں گی جس سے وہ سادہ اکثریت حاصل کرکے مخلوط حکومت بنانے کی پوزیشن میں آسکے اس لیے بلوچستان اور سندھ سے زیادہ سے زیادہ قومی اسمبلی کی نشستیں لینے کی امیدلیے بیٹھے ہیں تاکہ قومی اسمبلی کی نشستوں کا اہداف حاصل کیاجاسکے چونکہ پاکستان استحکام پارٹی، پی ٹی آئی پارلیمنٹزکسی طرح اتحاد کے حوالے سے فی الحال تیار دکھائی نہیں دے ر ہے
اگر وہ اتحاد کی طرف جائینگے تو مطالبات بھی بہت زیادہ ہوں گی شاید وہ بوجھ ن لیگ برداشت نہیں کرسکے گی خطرہ یہ محسوس کیاجارہا ہے کہ اگر ان اتحادیوں کی خواہشات کو پورا نہ کیاگیا
تو حکومت چلانا مشکل ہوجائے گا اور اس امکان کو بھی رد نہیں کیاجاسکتا کہ دو سے تین سال کے اندر پھر ن لیگی حکومت رخصت نہ ہوجائے مگراس خطرے کو بلوچستان میں بھی نظرانداز نہیں کیاجاسکتا۔فی الوقت ن لیگی قیادت دورہ بلوچستان کو کامیاب قرار دے رہی ہے مگر جب انہی اراکین کے مطالبات پہاڑ بن کر سامنے آئینگے تب بھی ن لیگ کے لیے خطرہ موجود رہے گا۔ن لیگ بلوچستان میں مخلوط حکومت تشکیل دینے کیلئے باپ، نیشنل پارٹی اور جمعیت علمائے اسلام ف پر توجہ مرکوز کئے ہوئے ہے مگر نواز شریف سے ملاقات کے دوران نیشنل پارٹی کے سربراہ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ اور باپ کی قیادت تودکھائی دی
جبکہ جمعیت علمائے اسلام کے مرکزی قائدین اس میں موجود نہیں تھے اب جمعیت کے مرکزی قائدین کی عدم شرکت کی وجہ کیا ہے یہ اہم خبر ہے مگر فی الحال کچھ کہنا قبل ازوقت ہوگا مگر ن لیگ نے سندھ میں ایم کیوایم پاکستان، جے یوآئی اور جی ڈی اے سے اتحاد کرلیا ہے جبکہ سندھ کی دیگر جماعتوں سے بھی رابطے ہیں اور بات چیت چل رہی ہے۔ پیپلزپارٹی نے اب تک اپنے پتے شو نہیں کئے ہیں البتہ بڑا بیانیہ پیپلزپارٹی لیکر چل رہی ہے کہ وہ اپنے بل بوتے پر عام انتخابات میں حصہ لے گی
اور تمام صوبوں سے کامیابی حاصل کرنے کے ساتھ مرکزمیں حکومت بنائے گی اور ایک بہت بڑاسرپرائز دے گی۔ بہرحال ابھی پیپلزپارٹی کھل کراپنے تمام پتے شو نہیں کررہی، خیبرپختونخواہ سے جلسوں کا آغاز پیپلزپارٹی کرنے جارہی ہے جبکہ یوم تاسیس پیپلزپارٹی کوئٹہ میں منائے گی۔ اب پیپلزپارٹی نے یہ تو کہہ دیا ہے کہ تمام سیاسی جماعتوں کو سرپرائز دے گی وہ سرپرائز کیا ہوگی؟
مفاہمت کے بادشاہ آصف علی زرداری سیاسی کھیل کے میدان میں بڑے کھلاڑی کے طور پر جانے جاتے ہیں تو سیاست میں کچھ بھی ہوسکتا ہے ناممکن بھی ممکن ہوجاتا ہے
اور سیاسی شخصیات کی ایک کشتی سے دوسری کشتی کی سواری یہاں کا کلچر بن چکا ہے اب دیکھتے ہیں کہ پیپلزپارٹی کی کشتی میں کتنی شخصیات بیٹھیں گی اور ن لیگ کی کشتی کوجھٹکا دینگی۔ تجزیاتی طور پر پاکستان پیپلزپارٹی کی پاکستان استحکام پارٹی، پی ٹی آئی پارلیمنٹنز کے ساتھ اتحاد کو بھی نظرانداز نہیں کیاجاسکتاالبتہ آنے والے دنوں میں سیاسی گہما گہمی عروج پر پہنچے گی اور دنگل سجیں گے تنقید کے نشتر بھی برسیں گے یعنی موسم سرما میں سیاسی ماحول بہت گرم رہے گا۔