|

وقتِ اشاعت :   November 18 – 2023

کسٹم انٹیلی جنس رپورٹ میں انکشاف ہوا ہے

کہ افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کی وجہ سے پاکستان کو غیر معمولی مالی نقصانات کا سامنا کرنا پڑا اور افغان امپورٹس اسمگل ہو کر پاکستان میں ہی فروخت ہوتی رہیں۔کسٹمزحکام کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کی 25 کروڑ کے مقابل افغانستان کی صرف 5 کروڑ آبادی کیلئے پاکستان کے راستے افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کئی گنا زیادہ ہے،

افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کی درآمدی قدر کے اعداد و شمار پاکستان کے مقابلے میں حیران کن طورپرزیادہ ہیں۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2022-23 میں پاکستان نے 84 ملین کے اور افغانستان کیلئے 404 ملین ڈالرز کے ٹائرامپورٹ ہوئے۔رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ افغانستان میں بلیک ٹی کی کھپت ہی نہیں لیکن گزشتہ مالی سال 89 ملین ڈالر کی چائے

امپورٹ ہوئی، اس کے علاوہ رواں مالی سال پاکستان 83 ملین ڈالرز کا فیبرک اور 12 ملین ڈالر کے ٹائر امپورٹ کرسکا جبکہ افغانستان کیلئے چند ماہ میں 440 ملین ڈالر کا فیبرک اور 92 ملین ڈالر کے ٹائر امپورٹ ہوئے۔رپورٹ کے مطابق مالی سال 2021-22 میں پاکستان نے 492 ملین ڈالر کا فیبرک، 225 ملین ڈالر کے ٹائر امپورٹ کیے، اسی سال افغانستان کیلئے 1416 ملین ڈالر کا فیبرک اور 235 ملین ڈالر کے ٹائرز امپورٹ ہوئے۔انٹیلی جنس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ درحقیقت افغان امپورٹس اسمگل ہو کر پاکستان میں ہی فروخت ہوتی رہیں، افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کی وجہ سے پاکستان کو غیر معمولی مالی نقصانات کا سامنا کرنا پڑا۔

کسٹم انٹیلی جنس رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ انتہائی تلخ فیصلے اور سخت ترین اقدامات کے بعد صورتحال مثبت نظر آرہی ہے، افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کے کنٹینرز درحقیقت پاکستان میں ہی کھلتے رہے، افغان ٹریڈ کا سامان افغانستان سے اسمگل ہوکر پاکستان بھر میں فروخت ہوتا رہا اور افغان ٹرانزٹ ٹریڈ پالیسی پاکستان کی معاشی تباہی اور بربادی کا سبب بنا۔

اس سے قبل پاکستان نے پاک، افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کے مبینہ غلط استعمال کے معاملے پر اپنی تشویش کا اظہار کرچکا ہے پاکستانی وزارتِ خارجہ کے ترجمان ممتاز زہرا بلوچ کا میڈیا بریفنگ کے دوران کہنا تھا کہ پاکستان ٹرانزٹ ٹریڈ کو آسان بنانے کے طریقے تلاش کرتا رہے گا لیکن ٹرانزٹ ٹریڈ کا غلط استعمال کیا جا رہا ہے اور پاکستان کو اس بارے میں تحفظات ہیں۔پاکستان نے کراچی بندرگاہ کے راستے افغانستان جانے والے سامان پر کچھ پابندیاں عائد کی تھیں۔ ڈیوٹی فری سامان افغانستان جانے کے بعد اسمگل ہو کر پاکستان پہنچ جاتا ہے جس سے پاکستان کی معیشت کو نقصان پہنچتا ہے۔ پاکستان نے افغانستان کے لیے درآمدی اشیا کی ایک منفی فہرست متعارف کرائی ہے یہ وہ پرتعیش اشیا ہیں جن کے بارے میں دیکھا گیا ہے کہ افغانستان درآمد ہونے کے بعد یہ پاکستان بھیج دی جاتی ہیں

یہ بہت بڑی معاشی واردات ہے جس سے یقینا نقصان پاکستانی معیشت کا ہورہا ہے۔ گزشتہ ماہ اکتوبر کے دوران وزارت تجارت نے افغانستان ٹرانزٹ ٹریڈ معاہدے کے تحت پاکستان سے 212 اشیاء افغانستان لے جانے پر پابندی عائدکی تھی اور ٹرانزٹ ٹریڈ ایگریمنٹ کے تحت اشیاء پاکستان کے راستے افغانستان لے جانے پر پابندی عائد کر دی گئی ہے جس کا وزارت تجارت نے ایس آر او نمبر بھی جاری کر دیا ہے۔

اشیاء کی افغان ٹرانزٹ ٹریڈ ایگریمنٹ کے تحت پاکستان سے افغانستان لے جانے کی اجازت نہیں ہو گی۔ایس آر او نمبر کے مطابق 17 اقسام کا کپڑا، تمام اقسام کی گاڑیوں کے ٹائرز، چائے کی پتی، کاسمیٹکس اور ٹوائلٹ میں استعمال کی جانے والی درجنوں اقسام کی اشیاء پر پابندی عائد کی گئی ہے۔اسی طرح نٹس، خشک اور تازہ پھل، ہوم ایپلائینسز جن میں فریج، ریفریجریٹر، ایئر کنڈیشنر، جوسر، مکسر بلینڈر شامل ہیں ان پر بھی افغانستان لے جانے کی پابندی لگا دی گئی ہے۔

پاکستان کو افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کے ذریعے بہت زیادہ نقصان پہنچ رہا ہے اسی بنیاد پر یہ پابندیاں عائد کی گئیں ہیں اب ٹرانزٹ ٹریڈ کے ذریعے صحیح تجارت کرنے پر حکمت عملی ضرور بننی چاہئے تاکہ ملکی معیشت کو نقصان سے بچایا جا سکے۔