اسرائیل کے ہاتھوں غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کشی کے بعد امریکی صدر بائیڈن نے کہا ہے کہ دو ریاستی حل کی جانب بڑھتے ہوئے غزہ اور مغربی کنارے کو نئے سرے سے بحال شدہ فلسطینی اتھارٹی کے ماتحت ایک ہونا چاہیے۔
امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ میں شائع اپنے مضمون میں امریکی صدر نے اس سوال کا جواب دینے کی کوشش کی ہے کہ حماس اسرائیل جنگ کے خاتمے کے بعد امریکا یا اقوام متحدہ مسئلہ فلسطین کیلئے کیسا حل چاہتے ہیں۔
امریکی صدر نے لکھا کہ ہم سب امن کیلئے کوششیں کر رہے ہیں، اور بلآخر غزہ اور مغربی کنارے کو دوریاستی حل کیلئے بحال شدہ ایک ہی گورننس اسٹرکچر کے تحت متحد ہونا چاہیے۔
انہوں نے لکھا کہ غزہ سے فلسطینیوں کا جبری انخلا نہیں ہونا چاہیے، دوبارہ قبضہ، محاصرہ، ناکہ بندی یا فلسطینی علاقوں میں کسی بھی قسم کی کوئی کمی نہیں ہونی چاہیے۔
اپنے مضمون میں انہوں نے مزید لکھا کہ 7 اکتوبر کے بعد مغربی کنارے میں آباد فلسطینیوں پر شدت پسندانہ پرتشدد حملوں میں بھی تیزی آگئی ہے، امریکا مغربی کنارے میں آباد فلسطینی شہریوں پر حملے کرنے والے شدت پسند اسرائیلیوں پر ویزا پابندیاں عائد کرنے کیلئے بھی تیاری کر رہا ہے۔
امریکی صدر نے لکھا کہ میں نے اسرائیلی لیڈرشپ پر زور دیا ہے کہ مغربی کنارے میں فلسطینیوں کے خلاف شدت پسندانہ پرتشدد واقعات بند ہونا چاہیے اور جو لوگ ایسے حملوں میں ملوث ہیں انہیں کیفر کردار تک پہنچانا چاہیے تاہم انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ مغربی کنارے میں 200 سے زائد فلسطینیوں کو قتل کرنے والے اسرائیلیوں کے ساتھ کیسا رویہ اپنایا جائے گا۔
امریکی صدر نے غزہ میں مکمل جنگ بندی کے اپنے دیرینہ مؤقف پر قائم رہتے ہوئے غزہ میں مکمل جنگ بندی کے مطالبات کو ایک بار پھر مسترد کرتے ہوئے لکھا کہ اسرائیل اور فلسطین کے لوگوں کیلئے دیرپا امن کے قیام کا واحد راستہ دو ریاستی حل ہے جس کیلئے امریکا اور اس کے اتحادیوں سمیت اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کے کمٹمنٹ بہت ضروری ہے۔
اپنے مضمون میں یوکرین اور غزہ جنگ کا موازنہ کرتے ہوئے صدر بائیڈن نے لکھا کہ حماس اور پیوٹن دونوں ہی اپنی پڑوسی جمہوریتوں کو نقشے سے مٹانا چاہتے ہیں، اور دونوں ہی عدم استحکام پیدا کر کے اس کا فائدہ لینے کے خواہشمند ہیں۔
اس سے قبل اسرائیلی وزیراعظم کہہ چکے ہیں کہ فلسطینی اتھارٹی اپنی موجودہ حالت میں غزہ کی ذمہ داری سنبھالنے کے قابل نہیں۔
امریکی صدر کے غزہ اور مغربی کنارے کو نئی فلسطینی اتھارٹی کے تحت بلآخر ایک ہوجانے سے متعلق مؤقف کے بعد فلسطین کے صدر محمود عباس کا سیاسی مستقبل بھی داؤ پر لگنے کا خدشہ پیدا ہو گیا ہے۔