بلوچستان میں ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں نے سیاسی دنگل سجادیا ہے،ن لیگ کے قائدین کی آمد پر بڑی بیٹھک لگی،
تقریباََ سبھی سیاسی ومذہبی جماعتوں کے قائدین نے نوازشریف سمیت دیگر رہنماؤں سے ملاقات کی اور اس دوران بلوچستان کی اہم شخصیات نے ن لیگ میں شمولیت کی جن کا ماضی میں بھی تعلق ن لیگ سے رہا ہے۔
یہ کوئی اچھنبے کی بات نہیں کہ 30اہم شخصیات نے ن لیگ میں شمولیت کی لیکن 30میں سے بمشکل 8سے 9کے قریب ایسی شخصیات ہیں جو منتخب ہوئے ہیں۔30کا بڑامارجن دیکر یہ مہم چلانا کہ تمام الیکٹیبلز تھے تو یہ زمینی حقائق کے بالکل منافی ہے اورجو درست ہے اسے تسلیم کیاجائے۔ن لیگ کی اس وقت مکمل کوشش یہی ہے
کہ بلوچستان سے وہ قومی اسمبلی کی نشستیں زیادہ نکالنے میں کامیاب ہوسکے تاکہ مرکز میں حکومت بنانے میں اسے مشکلات کا سامنا نہ کرناپڑے۔اسی طرح سندھ میں بھی ن لیگ اسی طرح اتحاد کرکے آگے بڑھ رہی ہے۔ ایم کیوایم پاکستان کے ساتھ اتحاد کا مقصد بھی قومی اسمبلیوں کی نشستیں ہیں۔یہ بات غلط نہیں کہ جو جماعت مرکز میں زیادہ نشستیں لینے میں کامیاب رہتی ہے
اور انہیں اکثریت کے لیے مزید قومی اسمبلی کی نشستیں درکار ہوتی ہیں تو ایم کیوایم کے مرکز پر حاضری ضرور دیتے ہیں اور حمایت بھی ان کو مل جاتی ہے چونکہ ایم کیوایم پاکستان بھی اپنے مفادات چاہتی ہے اور وہ بھی ہر حکومت کا حصہ بنتی آئی ہے۔ بہرحال پاکستان پیپلزپارٹی اس وقت زیادہ سیاسی جوڑتوڑ میں دکھائی نہیں دے رہی
مگراس کی خاموش حکمت عملی کے پیچھے کچھ نہ کچھ تو ضرور ہے چونکہ آصف علی زرداری کو سیاسی گیم چینجر کہاجاتا ہے،مفاہمت کا بادشاہ کب پانسہ پلٹ دے،
یہ سب کے لیے حیران کن ہی رہتا ہے۔ بہرحال اس تمام سیاسی گہما گہمی میں بلوچستان کہاں کھڑا ہے اور کس رخ سیاسی شخصیات جارہی ہیں اور کونسی پالیسی اپنارہی ہیں ایک بات ضرور ہے کہ ن لیگ کے قائدین کی آمد کے دوران جس طرح سے ملاقاتیں ہوئیں، اتحاد کی باتیں ہوئیں، شمولیتیں ہوئیں اس پر بلوچستان کی سیاسی شخصیات کو شدید تنقید کا سامنا کرناپڑرہا ہے۔
وکلاء تنظیمیں، سینئر مبصرین بغیر کسی ہچکچاہٹ کے کھل کر کہہ رہے ہیں کہ بلوچستان کے سیاسی رہنماؤں کو اس طرح فوری طور پر سیاسی فیصلے نہیں کرنے چاہئیں اوراس طرح کا سیاسی ماحول بنایا گیا ہے جیسے کوئی سیاسی منڈی لگی ہوئی ہے اوربولی لگ رہی ہے یقینا یہ ایک غیر مناسب بات ہے۔ شخصیات کی مرضی کہ وہ اپنے لئے کس جماعت کو بہتر سمجھتے ہیں مگر تنقید کی بنیادی وجہ بلوچستان کے مسائل ہیں
جس طرح سے حال ہی میں کانگو وائرس کے پھیلاؤ کے دوران بلوچستان کے دارالخلافہ کوئٹہ کے سب سے بڑے سرکاری سول سنڈیمن اسپتال کے آئی سی یو کو سیل کردیا گیا متاثرہ مریضوں کو علاج کے لیے کراچی منتقل کیا گیا۔ یہ ایک بڑا المیہ ہے کہ اربوں روپے کے فنڈز جو ایم پی ایز کو ملتے رہے ہیں بجٹ میں محکمہ صحت کیلئے خطیر رقم مختص کی گئی وہ کہاں خرچ ہوئی؟
یہ صرف ایک اسپتال کی مثال ہے بلوچستان تومسائلستان بنا ہوا ہے جس جگہ نظردوڑائی جائے تو کوئی ایسا ضلع نہیں جس میں بنیادی سہولیات کا مسئلہ نہ ہو۔آج تک بلوچستان کے عوام پینے کے صاف پانی کے لیے ترس رہے ہیں، شاہراہیں تباہ حال ہیں،
صحت اور تعلیم کا شعبہ بھی سب کے سامنے ہے کہ خطیر رقم بجٹ میں رکھنے کے باوجود اس سے کوئی فائدہ عوام کو نہیں مل رہا ہے۔لاکھوں بچوں کا اسکول سے باہر ہونا کیا سیاسی شخصیات کے لیے لمحہ فکریہ نہیں؟ اگر یہ مسائل سیاسی شخصیات کے نہیں،ان کا مطمع نظر محض اقتدار کاحصول اوروزارتیں ہیں تو تنقید انہیں برداشت کرنی پڑے گی یا پھر خود کو احتساب کیلئے پیش کرنے کیلئے اپنے حلقے کی نمایاں ترقی دکھانی ہوگی محض بیانات تک ترقی کے دعوے کرنا جھوٹ کو سچ ثابت نہیں کرسکتا۔