ملک سے غیر قانونی تارکین وطن کی واپسی کے حوالے سے بہت زیادہ غلط فہمیاں پیدا کی جارہی ہیں
کہ ایک مخصوص قوم کو نشانہ بناکر انہیں بھیجا جارہا ہے حالانکہ ریاستی سطح پریہ پالیسی طے کرلی گئی ہے کہ تمام غیر ملکی تارکین وطن کو ان کے ملک باعزت طریقے سے واپس بھیجا جائے گا جس کے لیے ڈیڈلائن بھی دیدی گئی تھی تاکہ انہیں موقع مل سکے کہ وہ رضاکارانہ طور پر خود اپنے وطن چلے جائیں اوراس دوران بعض چلے بھی گئے
مگر اب بھی لاکھوں کی تعداد میں غیر قانونی طور پر تارکین وطن ملک کے بعض علاقوں میں رہائش پذیر ہیں جن کے خلاف تمام ادارے مشترکہ طور پر آپریشن کرکے انہیں وطن واپس بھیجنے کے حوالے سے کام کررہے ہیں۔ افسوس کی بات ہے کہ اس آپریشن کو ایک مخصوص قوم کے ساتھ جوڑنے کی کوشش کی جارہی ہے
کہ صرف افغان باشندوں کو ہدف بنایاجارہا ہے حالانکہ ایسا بالکل نہیں ہے ایرانی سمیت دیگر غیرملکی باشندوں کے خلاف بھی کریک ڈاؤن کا سلسلہ جاری ہے اور انہیں بھی واپس بھیجنے کے لیے قانونی طریقہ استعمال کیاجارہا ہے اور کسی کی تذلیل نہیں کی جارہی ہے اور یہ دنیا کا قانون ہے کہ جو بھی غیر قانونی طور پر کسی بھی ملک میں داخل ہوتا ہے تو سب سے پہلے وہ اپنے متعلق تمام معلومات ریاست کو فراہم کرتا ہے امیگریشن کے ذریعے تاکہ اس کے کیس کی نوعیت کی جانچ پڑتا ل کی جائے۔ جس طرح سے یورپ میں لوگ معاشی مسائل، جنگ زدہ حالات کے باعث جاتے ہیں
انہیں وہاں رجسٹرڈ کیاجاتا ہے جس کے بعد انہیں مہاجرین کیمپ میں رکھاجاتا ہے اور ان کے کیسز کی شنوائی ہوتی ہے اس کے بعد شواہد کی بنیاد پر فیصلہ کیاجاتا ہے مگر ہمارے یہاں اندھیر نگری ہے روزانہ کی بنیاد پر ہزاروں کی تعداد میں لوگ بغیر کسی دستاویزات کے سرحد پارکرکے آتے رہے ہیں
اور یہ لوگ ملک کے کاروبار پر تو اثرانداز ہوتے رہے ہیں ساتھ بدامنی، اسمگلنگ سمیت دیگر جرائم بھی اپنے ساتھ لائے تو ریاست کیسے اسے برداشت کرسکتی ہے کوئی بھی جمہوری ملک اس طرح کے غیرقانونی عمل کو ناقابل برداشت سمجھتی ہے اور فوری ایکشن لیتی ہے۔ نگراں وزیر اطلاعات بلوچستان جان اچکزئی کا کہنا ہے کہ جو غیر ملکی سمجھتے ہیں کہ وہ اپنے وطن جانے سے بچ جائیں گے وہ احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں۔گزشتہ روز کوئٹہ میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے صوبائی وزیر اطلاعات جان اچکزئی کا کہنا تھا کہ غیر قانونی طور پر مقیم غیر ملکیوں کے خلاف کریک ڈاؤن کے دوسرے مرحلے کا آغاز کر دیا گیا ہے۔
غیر قانونی طور پر مقیم غیر ملکیوں کے خلاف مہم میں تمام حکومتی ادارے کام کر رہے ہیں، جنوری کے آخر تک 10لاکھ غیر قانونی تارکین کو واپس بھیجنے کی کوشش ہے، چمن بارڈر سے واپسی کا سلسلہ جاری ہے، گزشتہ چند دنوں میں غیرقانونی تارکین کی واپسی کاعمل سست پڑگیا ہے۔بہرحال ریاست واضح کررہی ہے کہ
غیر قانونی تارکین وطن کی واپسی کو ہر صورت ممکن بنایاجائے گالہٰذا غیر قانونی تارکین وطن جو بھی اس وقت بلوچستان سمیت دیگر صوبوں میں موجود ہیں وہ باعزت طریقے سے اپنی واپسی کے حوالے سے تعاون کریں اور دوسری بات یہ کہ منفی پروپیگنڈہ کے ذریعے اسے قوم پرستی،نسل پرستی سے نہ جوڑا جائے۔
غیر قانونی تارکین وطن سے متعلق سیاست سے نقصان ملک کا ہی ہوگا کیونکہ ماضی کی تاریخ ہمارے سامنے ہے کہ کس طرح سے بڑے سانحات بلوچستان میں رونما ہوئے اور ان میں بیشتر واقعات میں افغانستان کی سرزمین استعمال ہوئی ہے اور اب بھی دہشت گردی کے واقعات ہورہے ہیں اس کے بھی تانے بانے افغانستان سے ملتے ہیں جس کے شواہد سیکیورٹی ادارے دے چکے ہیں۔