بلوچستان میں بیوروکریسی ہمیشہ حکومتوںپر حاوی رہی ہے
ایسے آفیسران موجود ہیں جو منتخب وزیراعلیٰ بلوچستان کو بھی فائلوں کے چکر میں گھماکر رکھتے رہے ہیں ۔
بات 2008ء سے شروع کرتے ہیں اس وقت کی حکومت کوبھی یہی مسائل درپیش تھے ، میڈیا کے پاس یہ خبریں موجود ہوتی ہیں کہ بیورو کریسی وزراء اور نظام کو سسٹم کے تحت چلاتے ہیں اور بہت ہی ماہرانہ انداز میں منتخب وزیراعلیٰ سمیت وزراء کو بھی چکر دیتے ہیں چونکہ وہ ایک اپنا سیٹ اپ اور نظام بناکر کام کرتے ہیں
وزیراعلیٰ کے دستخط شدہ فائل کو بھی غائب کرنے میں ماہر ہیں اور یہ واردات تب کرتے ہیں
جب اس میں ان کے مفادات شامل نہیں ہوتے ۔بلوچستان میں تباہی وبربادی، کرپشن، پسماندگی ،محرومیوں کی ایک بڑی وجہ بیوروکریسی کے اندر موجود کرپٹ آفیسران ہیں جو عرصہ دراز سے ایک ہی پوسٹ پر براجمان ہیں اور اپنے تبادلے روکنے کیلئے اوپر سے آتے ہیں اور جس محکمے کے اندر موجود ہوتے ہیں
اسے چھوڑنے کیلئے بھی تیار نہیں ہوتے چونکہ اسی محکمے کے اندر ہی ان کا ایک پوراسسٹم اوپر سے لیکر نیچے تک کام کررہا ہوتا ہے ۔ بہرحال آف دی ریکارڈ بہت ساری باتیں وزراء اعلیٰ بلوچستان کہہ چکے ہیں جبکہ تقریبات کے دوران اپنی تقریر میں بھی وزیراعلیٰ بلوچستان یہ باتیں کہتے رہے ہیں
کہ بیوروکریسی کاموںمیں رکاوٹ ڈالتی ہے انہیں تنبیہ بھی کی جاتی ہے مگر ٹس سے مس نہیں ہوتے۔ بہرحال نگراںوزیراطلاعات جان اچکزئی نے کھل کر بات کی ہے
کوئی بڑا انکشاف نہیںکیا مگر جائز بات کی ہے کہ بیورو کریسی کا رویہ بلوچستان میں ترقیاتی کاموں اور عوامی مفاد کے حوالے سے بہتر نہیں ہے حالانکہ اس سے بھی زیادہ سخت لفظ استعمال کرنا ضروری ہے کہ بیورو کریسی بلوچستان دشمنی پر اتر آئی ہے جو بلوچستان میں ترقیاتی کاموںمیں رکاوٹ بن رہی ہے اس کی وجہ کرپشن کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے اگر شفاف تحقیقات کی جائے تو بہت سارے آفیسران کرپشن میںملوث پائے جائینگے۔
بہرحال گزشتہ روز نگراں صوبائی وزیر اطلاعات جان اچکزئی نے پریس کانفرنس کے دوران شکوہ کیا کہ بلوچستان میں بیوروکریسی کا رویہ ناقابل برادشت ہے بیوروکریسی نگران وزررا ء کو کام کرنے نہیں دے رہی جس کی وجہ سے کئی اہم فیصلوں پر عمل نہیں ہورہا
، وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ بلوچستان کے احکامات کو بیوروکریسی خاطر میں نہیں لارہی، صوبے میں ترقیاتی منصوبے سست روی کا شکار ہیں جس سے اربوں روپے لیپس ہونے کا خطرہ ہے، چیف آف آرمی اسٹاف کے وژن کے مطابق ایس آئی ایف سی کے تحت اقدامات ہو رہے ہیں
لیکن ان میں سب سے زیا دہ مشکلات بیور و کریسی کی طر ف سے پیش آرہی ہیں ۔ انہوں نے کہاکہ بلو چستان کی بیو رو کریسی کی روایاتی اور سر خ فیتہ کی وجہ سے عوام کے مسائل بڑھ رہے ہیں بد قسمتی سے بلو چستان میں نگراں حکومت کو وہ اہمیت نہیں دی جا رہی جو آئین کے مطابق دینی چاہیے ،نگراں حکومت کو سخت تنقید کا سامنا کر نا پڑ رہا ہے دیگر صوبوں میں عوامی مفادکے تمام تر قیاتی کام زور شورسے جا ری ہیں لیکن بلو چستان میں بد قسمتی سے یہ خدشہ پیدا ہو رہا ہے
کہ اربوں روپے کی اسکیمات وقت پرمکمل نہیں ہوں گی جس سے اربوں روپے لیپس ہو نے کا خد شہ ہے ، بلو چستان کو ملنے والے فنڈز میں کرپشن کی انکوائری بھی ابھی تک شروع نہیں ہو سکی اسی طرح این ٹی ایس اسکینڈل بھی منظر عام پر نہیں آسکا
،نگراں وزیر اعلیٰ بلو چستان کے احکامات کے باوجود بیور و کریسی کی مراعات ،گاڑیوں کی تفصیل کابینہ کو پیش نہیں کی گئی ۔ انہوں نے کہاکہ بیوروکریسی کے رویے کی وجہ سے نگران حکومت کو مشکلا ت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے وزررا ء اپنی ٹیم نہیں بنا پاہ رہے، بیورو کریسی کا موجودہ رویہ جاری رہا
تو صوبے میں مزید مایوسی پھیلے گی لہٰذاآئین کے مطابق نگراں حکومت کو اہمیت دی جائے ۔ انہوں نے کہاکہ چیف سیکرٹری بلو چستان سمیت چند آفسران کی کاوششوں کو خراج تحسین پیش کر تا ہوں چیف سیکرٹری اور چند اچھے آفیسران کا وژن بہترین ہے مگر اکثریتی بیوروکریسی کا رویہ ناقابل برداشت ہے ۔
بہرحال نگراں حکومت کو گلے شکووں سے آگے بڑھ کر اب اقدامات اٹھانے ہونگے وہ آئینی حدود میں رہ کر کم ازکم یہ کام کرسکتے ہیں کہ جو بھی جاری ترقیاتی منصوبوں میں رکاوٹ پیدا کررہے ہیں ان کے خلاف محکمانہ کارروائی عمل میں لاکر سخت فیصلے کیے جائیں جس طرح سے پنجاب کی نگراں حکومت کام کررہی ہے
دیگر صوبوںمیں بھی نگراں حکومتیں کام کررہی ہیں جب سندھ میں ترقیاتی منصوبوں اور سیلاب متاثرین کی بحالی کیلئے جاری منصوبے تعطل کا شکار ہوئے تو پیپلزپارٹی نے مؤثر طریقے سے آواز اٹھائی جس کے بعد کام شروع کردیا گیا۔ اب یہ دیگر سیاسی جماعتوں کی بھی ذمہ داری ہے جو بلوچستان میں ترقی چاہتے ہیں
تو نگراںوزیراطلاعات کے اس شکوے کو سنجیدگی سے لیں کیونکہ آنے والے وقت میں انہی جماعتوں میں سے کسی نے حکومت کرنی ہے اور مخلوط حکومت بنے گی تب ان کے کاموںکے اندر بھی رکاوٹیں پیداکی جائینگی لہٰذا سب مل کر اس سسٹم کو ختم کرنے میں اپنا کردار ادا کریں تاکہ بلوچستان میں کم ازکم پسماندگی اورمحرومیوں میںکمی تو آسکے۔