|

وقتِ اشاعت :   November 29 – 2023

ملک میں نیب جیسے ادارے کا ہونا ضروری ہے

یا نہیں اس میں سیاسی جماعتوں میں اختلاف رائے پایا جاتا ہے کیونکہ نیب کی گزشتہ کارکردگی بہت متنازعہ رہی ہے اور اس کی ذمہ دار خود سیاسی جماعتیں ہیں کیونکہ اپنے مخالفین کو انتقامی کارروائی کا نشانہ بنانے کیلئے نیب جیسے احتساب کرنے والے ادارے کو اپنے مقاصد کیلئے استعمال کیا،

ایک سابقہ نیب چیئرمین نے تو تمام اخلاقیات کو پامال کیا مگر اس کے باوجود بھی ان پر ہاتھ نہیں ڈالا گیا وہ آج بھی آزادانہ گھومتے دکھائی دیتے ہیں۔ بہرحال قصور نظام کا ہے جس کو سیاستدان استعمال کرتے ہیں

اورپھر خود بھی اس کی زد میں آتے رہتے ہیں البتہ تاریخ سے کسی نے کوئی سبق نہیں سیکھا اقتدار کی رسہ کشی کے چکر میں سیاسی عدم استحکام کے ساتھ معاشی عدم استحکام بھی پیدا ہوا۔ کب کس سیاستدان کو جھوٹے مقدمات میں پھنسایا گیا ایک لمبی فہرست ہے مگر اس سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ کرپشن تو ہوئی ہے مگر شفاف تحقیقات کبھی نہیں ہوئیں، من پسند فائل بند اور کھولے گئے نتائج سامنے ہیں کہ نواز شریف کو دی گئی

سزا اور کیسز جھوٹے نکل رہے ہیں۔ گزشتہ روز اسلام آباد ہائیکورٹ نے نوازشریف کی ایون فیلڈ اور العزیزیہ ریفرنس میں سزا کے خلاف اپیلوں پر سماعت کی جس میں سابق وزیراعظم کے وکیل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ نیب نے ثابت کرنا تھا کہ نوازشریف نے پراپرٹیزکی خریداری کیلئے ادائیگی کی، سب سے اہم بات ان پراپرٹیزکی اونر شپ کا ہے، نہ تو زبانی، نہ دستاویزی ثبوت ہے کہ یہ پراپرٹیز کبھی نوازشریف کی ملکیت رہی ہوں، بچوں کے نوازشریف کے زیرکفالت کا بھی کوئی ثبوت موجود نہیں،

ان تمام چیزوں کو استغاثہ کو ثابت کرنا ہوتا ہے، کوئی ثبوت نہیں کہ پراپرٹیز نوازشریف کی ملکیت یا تحویل میں رہیں۔ امجد پرویز کے دلائل پر چیف جسٹس عامر فاروق نے سوال کیا کہ یہ سارا پراسیکیوشن کا کام ہے؟ اس پر امجد پرویز نے کہا کہ جی بالکل یہ سب پراسیکیوشن نے ہی ثابت کرنا ہوتا ہے

، کورٹ نے مفروضے پر سزادی اور فیصلے میں ثبوت کے بجائے عمومی بات لکھ دی، عدالت نے کہا کہ مریم نواز بینفشل اونر تھیں اور نوازشریف کے زیرکفالت بھی تھیں،

عدالت نے کہا کہ بچے عمومی طورپروالد کے زیرکفالت ہوتے ہیں۔

دوسری جانب نیب نے فلیگ شپ ریفرنس میں بھی نواز شریف کی بریت کے خلاف اپیل واپس لے لی۔ عدالتی فیصلے پر ردعمل دیتے ہوئے قائد مسلم لیگ ن نواز شریف کا کہنا تھاکہ العزیزیہ ریفرنس کامعاملہ بھی اللہ پر چھوڑا ہوا ہے، واضح رہے کہ 6 جولائی 2018 کو اسلام آباد کی احتساب عدالت نے ایون فیلڈ ریفرنس میں مریم نواز کو 7 سال اور ان کے شوہر کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کو ایک سال قید کی سزا سنائی تھی،

مریم نواز کو جرم میں معاونت کے الزام میں سزا سنائی گئی تھی۔ ایون فیلڈ کیس میں ہی مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف کو 10 سال قید کی سز اسنائی گئی تھی۔فیصلے پر مسلم لیگ ن کے قائد نے سزائوں کیخلاف اپیل کی تھی۔ بہرحال یہ ضروری ہے کہ تاریخ سے سبق سیکھتے ہوئے سیاستدانوں کو قانونی و آئینی اداروں کو بطور سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کرنے سے گریز کرنا ہوگا وگرنہ سالوں بعد بھی نتائج منفی نکلیں گے اور خود سیاستدان مکافات عمل کا شکار ہونگے۔