تربت میں سی ٹی ڈی کے مبینہ مقابلے میں نوجوان بالاچ مولابخش کے جاں بحق ہونے کے خلاف دھرناجاری ہے۔
دھرنے میں جاں بحق نوجوان کے لواحقین کے علاوہ سول سوسائٹی کے نمائندگان سمیت سیاسی جماعتوں اور دیگر افراد کی بڑی تعداد شریک ہے، تربت دھرنے کے شرکاء کا مطالبہ ہے کہ مبینہ پولیس مقابلے میں اہلکاروں پر مقدمہ درج کرکے ان کے خلاف کارروائی کی جائے۔تربت میں گزشتہ جمعرات کو مبینہ مقابلے میں نوجوان بالاچ سمیت 4 افراد جاں بحق ہوئے تھے۔
اس سے قبل مقابلے میں جان بحق نوجوان بالاچ کی، واقعے کے 6 دن بعد گزشتہ روز مقامی قبرستان میں تدفین کردی گئی تھی۔ بہرحال یہ صورتحال بلوچستان کی سیاسی حالات کے تناظر میں کسی صورت نیک شگون نہیں ماضی اس بات کی گواہ ہے کہ بلوچستان میں شورش کی بنیاد ناانصافیاں ہیں،
ریاست ماں ہوتی ہے اسی ریاستی نظام کے اندر عوامی جان و مال کا تحفظ حکومتوں اور اداروں کی ذمہ داری بنتی ہے جو ریاستی نظام کے اندر موجود قانون و آئین کے تحت چلتی ہیں ۔قانون اورآئین سے کوئی بھی شخص اور ادارہ بالاتر نہیں سب اس نظام کے نیچے رہتے ہوئے فرائض سر انجام دینے کے پابند ہیں جنہیں آئین و قانون کے تحت اختیار دی گئی ہے، ماورائے قانون کوئی بھی ایکشن عوامی ردعمل کے طور پر سامنے آتا ہے جس طرح کیچ میں نوجوانوں کا مبینہ طور پر قتل ہے
اور اس کا الزام سی ٹی ڈی پر لواحقین کی جانب سے عائد کیا جارہاہے مطالبہ صرف یہی ہے کہ واقعے کی شفاف انکوائری کی جائے، مقدمہ درج کیا جائے۔
جمہوری ممالک میں یہ حق ہر شہری کوحاصل ہوتاہے کہ ماورائے آئین کسی بھی اقدام کو چیلنج کرسکتا ہے یہی مطالبہ تربت سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں کے قتل کی شفاف تحقیقات کے حوالے سے کیا جارہا ہے، ریاست اپنی ذمہ داری پوری کرے، نگران وفاقی اور صوبائی حکومت اس حوالے سے اپنا کلیدی کردار ادا کریں،
معاملے کی شفاف انکوائری کرکے اصل محرکات کو سامنے لائیں، اگر اس میں قانون و آئین کی پاسداری نہ کی گئی تو نظام سے عوام دل برداشتہ ہوںگی لہذا تربت واقعے کے حوالے سے اعلیٰ سطح پر تحقیقات کی جائیں تاکہ نظام پر سوال نہ اٹھایا جاسکے۔
تربت میں جاں بحق نوجوانوں کے لواحقین سمیت مظاہرین میں موجود تشویش کو ختم کرنے کیلئے نگراں حکومت اور ادارے اپنا کردار ادا کرتے ہوئے انصاف کے تقاضے پورے کریں۔