اسلام آباد: نگران وزیر داخلہ سرفراز بگٹی نے کہا ہے کہ پنجاب اور ہماری اسمبلی میں علیحدگی پسندوں کے پراپیگنڈے کا بہت زیادہ اثر ہے،
ہمارے ایوان میں علیحدگی پسندوں کی جائز آوازیں موجود ہیں جو ان کا نقطہ نظر بیان کرتی ہیں،ملک کے خلاف ایک انٹیلی جنس پر مبنی جنگ ہورہی ہے جس کی قیادت را کر رہی ہے،عمران خان کو چیئرمین شپ سے ہٹانا ہماری جماعت کا فیصلہ تھا ہمارا نہیں، 9مئی کے واقعے سے متعلق میرے دل میں کوئی نرم گوشہ نہیں ہے ۔
ایک انٹرویومیں نگران وزیر داخلہ نے کہا کہ ملک کے خلاف ایک انٹیلی جنس پر مبنی جنگ ہورہی ہے جس کی قیادت را کر رہی ہے،
یہ ایک مکمل جنگ ہے جس کی مثال کلبھوشن یاود اور دیگر بھارتی نیٹ ورکس کا یہاں پکڑے جانا ہے تو اس جنگ کے لیے آپ کو جائز آوازیں بھی درکار ہیں، پراپیگنڈہ بھی کرنا ہے۔انہوں نے کہا کہ پراپیگنڈہ کرنے کے لیے آپ کو دو چیزیں چاہئیں، ایک اس ملک میں جائز آوازیں ہیں تو ہماری اسمبلی میں علیحدگی پسندوں کی جائز آوازیں موجود ہیں
جو علیحدگی پسندوں کا نقطہ نظر بیان کرتی ہیں، بدقسمتی سے پنجاب میں اور ہماری اسمبلی میں ان کے پراپیگنڈے کا بہت زیادہ اثر ہے یہاں تک کہ میں اپنے دوستوں کو کہتا ہوں کہ آپ بڑے اچھے مقتول ہیں، جو آپ کو قتل کرتا ہے آپ اس کی بڑی عزت کرتے ہیں۔
انہوں نے کہاکہ بغاوت ایک علیحدہ باب ہے، کسی بھی بغاوت کو کامیاب اور اسے زندہ رکھنے کے لیے وہ نوجوان چاہیے ہوتے ہیں جن کا آپ استعمال کر سکیں، بلوچستان میں ایسے نوجوان آسانی سے مل جاتے ہیں، دوسری چیز جو چاہیے وہ یہ ہے کہ سپلائی چین نہ رکے اور جو فورس اس کو روکنے کے لیے کام کر رہی اس کو بدنام کردیں۔سرفراز بگٹی نے کہا کہ مثال کے طور پر پنجابیوں کو بلوچستان میں شناختی کارڈ دیکھ کے شہید کیا جاتا ہے،
5ہزار لوگوں کو وہاں قتل کیا گیا، جو صدیوں سے ہمارے ساتھ رہتے تھے، ہمارے بھائی تھے، ہماری طرح کا کلچر تھا، ہماری زبانیں بولتے تھے، ساتھ اٹھتے بیٹھتے تھے لیکن اس کے باوجود ان کو مارا کیا گیا، کتنے ڈاکٹرز پروفیسرز کو مارا گیا کبھی ان پر کوئی بات کیوں نہیں ہوئی؟انہوں نے پوچھا کہ کریمہ بلوچ کی موت کا آپ کو پتا ہوگا، مظاہرے بھی ہوئے مگر پروفیسر ناظمہ طالب نے 30سال بلوچستان کے بچوں کو ہوم اکنامکس پڑھائی پر ان کو 9 اپریل 2009 کو شہید کردیا گیا،
اس کا نہیں پتا ہوگا، کیوں؟ ہم اس ملک میں تشدد کے خلاف دو طرح کا رویہ کیوں اپناتے ہیں؟ جو مذہب کے نام پر تشدد کیا جاتا ہے اس کو ہم دہشت گردی کہتے ہیں مگر قوم پرستی کے نام پر تشدد کو ہم جائز کیوں سمجھتے ہیں؟ وہ اس لیے کیونکہ پاکستان کے اسٹوری ٹیلرز کے مقابلے ریاست کے خلاف دوسرے فریق کا پراپیگنڈہ زیادہ ہے،
ان کی جائز آوازیں یہاں بہت زیادہ ہیں۔فیض آباددھرنا کیس میں جنرل فیض حمید اور جنرل باجوہ کو عدالت کی جانب سے طلب کیے جانے کے حوالے سے انہوںنے کہاکہ ہمیشہ ہمیں آگے بڑھنا چاہیے یہی پاکستان کے لیے بہتر ہوتا ہے۔انہوںنے کہاکہ اگر ہم ماضی میں ہی گھسے رہیں گے تو ہم اس مقام تک شاید نا پہنچ سکیں جن کا خواب ہمارے بڑوں نے دیکھا تھا، ان کو بلانا پاکستان کو کتنا سود مند ہوگا یہ دیکھنا پڑے گا۔لاپتا افراد سے متعلق انہوں نے بتایا کہ یہ معاملہ بہت خطرناک ہے
لیکن میں یہ سمجھتا ہوں کہ لاپتا افراد کا اکانٹ بہت پیچیدہ اور خطرناک ہے، پھر ہمارے پاس لاپتا افراد کا ایک کمیشن بنا ہے، اس نے 86.87 فیصد کے قریب کیسز حل کیے ہیں، اتنا بڑا کام کیا ہے، اب جو لوگ رہ گئے ہیں ظاہر ہے کمیشن ان کے کیسز بھی سنے گا۔
انہوں نے کہاکہ یہ صرف پاکستان کا نہیں بلکہ پورے خطے کا مسئلہ ہے اور جو آپ تعداد کی بات کرتے ہیں تو پورے خطے میں سب سے کم لاپتہ افراد کی تعداد پاکستان میں ہے۔افغان مہاجرین کے حوالے سے انہوںنے کہاکہ 4 لاکھ سے زائد لوگ ملک سے واپس جا چکے ہیں، ہمارے پاس غیر قانونی طور پر افغان ہی رہ رہے تھے، وہ ہمارے بھائی ہیں
اور ہم ان کو کہتے ہیں کہ اگر ہمارے ملک میں رہنا ہے تو ہمارے دروازے پر دستک دیں، ہم آپ کو ویزہ دیں گے، آپ کاروبار کرنا چاہتے ہیں یا رہنا چاہتے ہیں تو آپ کو خوش آمدید کہیں گے لیکن یہ نہیں ہوسکتا کہ آپ ہماری چار دیواری پھلانگ کے آجائیں اور ہم آپ کی حیثیت مہمان کی ہی رکھیں
۔انہوں نے کہا کہ بنوں واقعے میں تو افغان شہری ملوث تھا، 24 حملوں میں سے 14 حملے افغان شہریوں نے کیے، میانوالی والے کی ابھی تحقیقات ہونی ہے،
حتمی بات بنوں واقعہ ہے اور کیا میرے ملک کا یہ اختیار نہیں ہیکہ جو اس ملک میں آئے وہ سفری دستاویز کے ساتھ آئے۔سیکیورٹی خدشات کے حواسے سے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے انہوںنے کہاکہ پچھلے آٹھ مہینوں میں اس ملک میں دہشت گردی میں 78 فیصد اضافہ ہوا، اس میں بلوچ علیحدگی پسند اور ٹی ٹی پی بڑا چیلنج ہیں، یہ چیلنج ہمیشہ سے رہا یہ کوئی نئی بات نہیں ہے، گو کہ بیچ میں بالکل حالات ٹھیک ہونے جارہے تھے
لیکن یہ بد قسمتی ہے کہ ہم میں مستقل مزاجی نہیں ہے جس کی وجہ سے یہ باغی دوبارہ متحرک ہوجاتے ہیں، جب ہم ان کے ساتھ نرمی دکھاتے ہیں تو وہ دوبارہ مضبوط ہوجاتے ہیں اور ہم پر حملے کرتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ
ملک میں دہشت گردی بڑھ گئی ہے تو اس کے لیے خطرات تو موجود ہیں لیکن یہ ایک چیلنج ہے جس سے ہم نے نمٹنا ہے اور اس لڑائی میں جیتنا ہے، ریاست پہلے بھی یہ لڑائی جیت چکی ہے اور انشااللہ پھر جیتے گی،
زیادہ اہم بات یہ ہے کہ یہ اضافہ ہو کیوں رہا ہے؟ ہم کوشش کریں گے کہ الیکشن میں کوئی ایسا معاملہ نہ ہو۔انتخابات سے متعلق سوال پر انہوںنے کہاکہ الیکشن کے دنوں میں لیڈران زیادہ ایکسپوز ہوتے ہیں، وہ زیادہ عوام میں جاتے ہیں ، جلسے جلوس ہوتے ہیں، عام دنوں میں سیکیورٹی کے اتنے مسئلے نہیں ہوتے لیکن جب پتا ہوتا ہے کہ اس اس جگہ پر اس لیڈر نے جلسہ کرنا ہے تو خطرہ ہوجاتا ہے
اور ساتھ ساتھ سیکیورٹی کے اقدامات بھی بڑھ جاتے ہیں۔نگران وزیر داخلہ نے کہا کہ ماضی میں پیپلز پارٹی کو بھی تھریٹس تھے، اے این پی بھی دہشت گردی سے بہت متاثر ہوئی ہے، مجھے لگتا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف ہی وہ واحد جماعت ہے جسے کوئی خطرہ نہیں رہا کیونکہ وہ یہ خود اپنے بیانات میں کہہ چکے ہیں کہ وہ ٹی ٹی پی کے ساتھ کمفرٹیبل تھے، شاید دونوں فریق ایک
دوسرے سے محبت کرتے ہیں۔