اسرائیل کے وزیراعظم نیتن یاہو نے جنگ کے بعد غزہ کی سکیورٹی سنبھالنے کا اعلان کردیا۔
اسرائیلی وزیراعظم نے کہا کہ حماس کے ساتھ جنگ ختم ہونے کے بعد اسرائیلی فوج ہی غزہ کی سکیورٹی کا کنٹرول جاری رکھے گی۔
نیتن یاہو نے کسی غیر ملکی فورس کو یہ ذمہ داری سونپنے کے امکان کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ جنگ کے بعد غزہ کاکنٹرول کسی بین الاقوامی فورس کو نہیں دیں گے، تنازع ختم ہونے کے بعد اسے ‘فوج کے بغیر ملک’ بنانا چاہیے۔
نیتن یاہو نے مزید کہا کہ غزہ کو عسکریت سے پاک کرنے کے لیے صرف ایک ہی فوج یہ کارروائی دیکھ سکتی ہے اور وہ اسرائیلی فوج ہے۔
دوسری جانب امریکی صدر جو بائیڈن نے منگل کو اپنے ایک بیان میں زندہ بچ جانے والوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ حماس نے 7 اکتوبر کو جنوبی اسرائیل پر حملے کے دوران بار بار خواتین کی عصمت دری کی اور ان کی لاشوں کو مسخ کیا۔
بائیڈن نے الزام عائد کیا کہ گزشتہ کچھ عرصے میں بدترین ظلم کا سامنا کرنا پڑا، خواتین سے زیادتی سمیت ان کو زندہ مسخ کیا جارہا ہے، ان کی لاشوں سے بے حرمتی کی جارہی ہے، حماس کے دہشت گرد خواتین اور لڑکیوں کو زیادہ سے زیادہ درد اور تکلیف پہنچا رہے ہیں اور پھر انہیں قتل کر رہے ہیں، یہ خوفناک ہے۔
صدر بائیڈن نے بین الاقوامی تنظیموں، سول سوسائٹی پر زور دیا کہ وہ اس جنسی تشدد کی مذمت کریں۔
علاوہ ازیں اسرائیل کے حملوں میں گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران مزید 150 فلسطینی شہید ہوچکے ہیں جب کہ سیکڑوں زخمی ہیں، اسرائیلی فوج نے خان یونس شہر کا محاصرہ کرلیا ہے۔
عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہےکہ جنگ شروع ہونے سے اب تک سوا لاکھ فلسطینی سانس کی بیماری، 86 ہزار ہیضہ اور 1200 یرقان میں مبتلا ہوچکے۔
اس کے علاوہ 30 ہزار افراد کے شیلٹر میں ہر 400 افراد کے لیے صرف ایک بیت الخلا ہے، صورتحال پوری آبادی کے لیے خطرہ بن چکی ہے۔
امریکی میڈیا نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ غزہ پر حملے جنوری تک جاری رہ سکتے ہیں، جنوری کےبعد غزہ میں اسرائیل کےٹارگٹڈ حملے جاری رہیں گے۔
دوسری جانب اسرائیلی ملٹری چیف ربی کا بیان ایک بار پھر تنقید کی زد میں ہے، بریگیڈیئر جنرل ایال کریم نے جنگ میں خواتین کی عصمت دری کو جائز قرار دیا تھا۔
واضح رہے کہ 7 اکتوبر سے اب تک غزہ میں انسانیت سوز اسرائیلی کارروائیوں کے نتیجے میں 7 ہزار سےزائد بچوں سمیت فلسطینی شہدا کی مجموعی تعداد 16 ہزار 248 جب کہ زخمی ہونے والوں کی تعداد بھی 43 ہزار 600 سے متجاوز ہو چکی ہے۔
اسرائیل کی بلاتفریق بمباری کے نتیجے میں تباہ ہونے والی عمارتوں کے ملبے تلے 7 ہزار 600 سے زائد افراد اب بھی دبے ہیں۔