گزشتہ کئی سالوں سے ملک بھر کے شہروں اور دیہاتوں میں جہاں تقسیم کار بجلی کمپنیاں کا کام کررہی ہیں
صارفین کو دہرے عذاب میں مبتلا کر رکھا ہے، ایک تو بجلی کی لوڈ شیڈنگ بہت زیادہ ہے جبکہ دوسرا بجلی کی عدم فراہمی کے باوجود بھاری بھرکم بل صارفین کو بھیجے جاتے ہیں ۔ ایسی ہی واردات بجلی کمپنیوں کی جانب سے اگست کے مہینے میں کی گئی جس کے خلاف عوام سمیت تاجر برادری سراپا احتجاج بن گئی
اور سخت احتجاجی مظاہرے کئے مگر اس کے باوجود بھی کمپنیوں پر کوئی اثر نہیں پڑا۔ غیر اعلانیہ لوڈ شیڈنگ کا سلسلہ اب بھی جاری ہے اور بھاری بھر کم بلز بھی اسی طرح آر ہے ہیں۔ بجلی کم استعمال کرنے کے باوجود بھی بجلی کے بھاری بلوں کا آنا بڑی زیادتی ہے۔
عوام تو پہلے سے ہی مہنگائی کے باعث شدید مشکلات سے دو چار ہے اوپر سے آئے روز بجلی اور گیس کی بڑھتی قیمتوںنے عوام کو عذاب میں مبتلا کردیا ہے۔ بہرحال اب بجلی کمپنیوں کی جانب سے صارفین کو جان بوجھ کر زائد بل بھجوانے کے معاملے پر پاور ڈویژن نے 4 رکنی انکوائری کمیٹی تشکیل دے دی ہے۔
سابق سیکرٹری پاور ڈویژن عرفان علی کمیٹی کی سربراہی کریں گے، پاور ڈویژن کی جانب سے کمیٹی کے ٹی او آرز بھی جاری کردئیے گئے۔ کمیٹی ڈسکوز اور پی آئی ٹی سی کے ڈیٹا کی بنیاد پر نیپرا رپورٹ کا جائزہ لیگی، نیپرا تحقیقات کے لیے سیمپلنگ کے طریقہ کار کا بھی جائزہ لیاجائیگا،
بجلی صارفین کو ایک ماہ سے زائدکی بلنگ کے معاملے کا جائزہ لیا جائیگا، بجلی کمپنیوں کے افسران اور نیپرا کی تحقیقاتی ٹیم سے بھی پوچھ گچھ کی جائیگی، کمیٹی15 روز کے اندر اپنی سفارشات مرتب کرکے پیش کریگی۔ نوٹیفکیشن کے مطابق کمیٹی مزید کارروائی کے لیے ذمہ داروں کا تعین بھی کرے گی۔ بہرحال بجلی سپلائی کمپنیاں بجلی کی ترسیل ذمہ دارانہ طریقے سے نہیں کررہیں
اور ان کی کارکردگی بھی تسلی بشخ نہیں ہے عوام اور تاجروں نے پہلے بھی یہی مطالبہ کیا ہے کہ
بجلی کی فراہمی اور بلوں پر چیک اینڈ بیلنس لازمی ہونا چاہئے کیونکہ عوام کاخون چوس کر رقم وصول کی جارہی ہے پھر اس سے بڑھ کر زیادتی یہ بھی ہے کہ صارفین کے میٹرز بھی اتارے جارہے ہیں۔ بجلی کمپنیوں کے خلاف شفاف تحقیقات ضروری ہیں اور ذمہ داران کے خلاف سخت کارروائی کو بھی یقینی بنائی جائے تاکہ کمپنیوں کی زیادتی اور ظلم کا سلسلہ بند ہوسکے۔