|

وقتِ اشاعت :   December 15 – 2023

کوئٹہ: سیاسی رہنماؤں، بلوچ یکجہتی کمیٹی،و کلاء نمائندوں اور لاپتہ افراد کے لواحقین ودیگر نے کہا ہے کہ دھرنے کے شرکاء کا مطالبہ ریاست کے متعین کردہ اصولوں، پارلیمنٹ میں بننے والے آئین اور قانون کے تحت ہیں، لانگ مارچ کے شرکاء آج ریلی کی صورت میں اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کریں گے

مطالبات کی منظوری تک تحریک جاری رہے گی،

بلوچستان کے لوگ اپنی جدوجہد میں تیزی لائیں تاکہ ان کے حقیقی نمائندے پرامن سیاسی جدوجہد کے ذریعے بلوچستان کے قومی حقوق، سربلندی اور وقار کیلئے اپنا کردار ادا کرسکیں عوام کے نمائندوں نے خود کو کنٹینر کے حصار میں بند کیا ہےان کا احتساب ہونا چاہیے،

یہ بات سنیئر سیاستدان و سابق سینیٹر نوابزادہ حاجی میر لشکری خان رئیسانی،بلوچ یکجہتی کمیٹی کی رہنما ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ، وومن فورم کی آرگنائزر ڈاکٹر شلی بلوچ، پروفیسر ڈاکٹر منظور بلوچ، ذاکر مجید بلوچ کی والدہ، پاکستان بار کونسل کے رکن منیر کاکڑ ایڈووکیٹ، سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر علی احمد کرد ایڈووکیٹ،

لاپتہ فتح میار کے والد نے جمعرات کو بلوچ یکجہتی کمیٹی کے زیراہتمام سریاب روڈ پر کیچ سے آنے والے لانگ مارچ کے دھرنے میں سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہی، اس موقع پر سابق وفاقی وزیر میر ہمایوں عزیز کرد، راحب بلیدی ایڈووکیٹ، عمران بلوچ ایڈووکیٹ، مہیم خان بلوچ سمیت دیگر بھی موجود تھے۔

سیمینار سے سینئر سیاستدان و سابق سینیٹر نوابزادہ حاجی میر لشکری خان رئیسانی نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ دھرنے میں شریک خواتین بچے، بزرگ، نوجوان نہ صرف بالاچ بلکہ ہر وہ شخص جو انصاف کا طلب گار ہے کی آواز ہیں، یہ جدوجہد ملک کی تمام قومی اکائیوں کیلئے ایک مثال ہے جو قومیں انصاف کیلئے جدوجہد کرتی ہیں وہ ایک نہ ایک دن ضرور کامیاب ہوتی ہیں، دھرنے کے شرکاء کا مطالبہ ریاست کے متعین کردہ اصولوں، پارلیمنٹ میں بننے والے آئین اور قانون کے تحت ہیں کہ آئین کے آرٹیکل (9) کے تحت ریاست شہریوں کی جان ومال کے تحفظ کی ضمانت دیتا ہے اور آرٹیکل 10 کے تحت یہ ملک اپنے شہریوں کو انصاف فراہم کرنے کی ضمانت اور سیاسی عمل کی اجازت دیتا ہے۔ مگر یہاں رائج نظام کے تحت جب آئین کا احترام نہیں کیا جاتا ہے تو کسی اور کا کیا احترام کیا جائے گا،

انہوں نے کہا کہ اس دھرنے میں موجود خواتین اور بچوں کا مطالبہ ہے کہ بلوچستان کے قومی حقوق، قومی سوال اور قومی شناخت کو نہ صرف تسلیم کیا جائے بلکہ اس کا احترام کیا جائے، ہماری ہزاروں سالوں پر محیط ثقافت کا احترام کیا جائے، وسائل کے لوٹ مار کیلئے جعلی قیادت ایجاد کرنا بند کیا جائے، دھرنے کے شرکاء کا مطالبہ ہے کہ ماوارئے آئین قتل کا سلسلہ بند کیا جائے،

انہوں نے کہا کہ 2018ء میں بلوچستان میں ایک جعلی سیاسی جماعت تشکیل دی گئی جس کے نتیجے میں بلوچستان کے لوگوں کی نمائندگی صوبائی اور قومی اسمبلی میں تھی سینیٹ میں بھی گونگوں کو بھیجا گیا ہے جنہیں بلوچستان کے مسائل یہاں کے لوگوں کی تکلیف دکھائی نہیں دیتی، اب 2018ء میں بننے والی پارٹی کو تین چار حصوں میں تقسیم کیا گیا تاکہ پارلیمنٹ کو مفلوج رکھا جاسکے اور صوبے میں ظلم پر کوئی آواز نہ اٹھائے۔ انہوں نے کہا کہ جعلی الیکٹبلز کو مختلف پارٹیوں میں تقسیم کیا گیا تاکہ پارٹیاں ان کے زیر اثر رہیں اور صوبے کے معاملات پر پردہ ڈالا جاسکے، انہوں نے کہا کہ بلوچستان کے قدرتی وسائل اور ساحل کو گیم چینجر قرار دے کر اربوں روپے کہاں خرچ ہوئے آج لوگ روزگار کیلئے اپنی جان قربان کررہے ہیں لوگوں کے پیروں میں جوتے نہیں ان کے سروں سے دستار بھی چھین لیا گیا ہے،

انہوں نے کہا کہ سیاسی کارکن بلوچستان کے وسائل کے لوٹ مار کا راستہ روکنے کیلئے ان سیاسی جماعتوں کا احتساب کریں جو رات کی تاریکی میں ڈیل کرتی ہیں آئین اور قانون کے سائے میں ہونے والے لوٹ مار کا بھی راستہ روکا جائے،

انہوں نے کہا کہ لانگ مارچ کا اگلا پڑاو اسلام آباد ہوگا انہوں نے کہا کہ ریڈ زون کو جعلی حکومت نے کنٹینر لگاکر بند کردیا ہے وہ ہمارے نمائندے نہیں اگر یہ ہمارے نمائندے ہوتے تو الزامات لگانے کی بجائے دھرنے میں بیٹھے ماوں اور بہنوں کے سروں پر ہاتھ رکھتے،

انہوں نے کہا کہ عوام کے نمائندوں نے خود کو کنٹینر کے حصار میں بند کیا ہے ان کا احتساب ہونا چاہیے، بلوچستان کے لوگ اپنی جدوجہد میں تیزی لائیں تاکہ ان کے حقیقی نمائندے پرامن سیاسی جدوجہد کے ذریعے بلوچستان کے قومی حقوق، سربلندی اور وقار کیلئے اپنا کردار ادا کرسکیں۔

انہوں نے کہا کہ کوئٹہ کے جناح روڈ پر پہلے کتابوں کی دکانیں ہوتی تھیں وہاں سیاسی قیادت بیٹھا کرتی تھی آج کتابوں کی دکانیں بند ہوکر وہاں جوتے کی دکانیں کھل گئی ہیں جو اس معاشرے کیلئے ایک واضح پیغام ہے سیاسی جدوجہد کے ذریعے اپنے قومی وقار کا دفاع کرکے آئندہ آنے والے دنوں میں ان لوگوں کا احتساب کریں جنہوں نے ذاتی مفاد کیلئے قومی مفاد کو قربان کیا،انہوں نے کہا کہ مایوس نہیں ہونا چاہیے آئندہ آنے والے دنوں میں وسائل پر اختیار بلوچستان کے لوگوں کا ہوگا۔

بلوچ یکجہتی کمیٹی کی رہنما ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے کہا کہ لانگ مارچ کی کامیابی میں ہر فرد نے اپنے اپنے حصہ کا کردار ادا کرکے ثابت کیا کہ عوام اور قوم کی طاقت سب سے اہم ہے،

ہم ایک دوسرے سے جدا نہیں ہمارا درد یکساں ہے ہمیں کوئی جدا نہیں کرسکتا، ہزاروں سال سے بلوچستان کے لوگوں نے اس سرزمین سے وفاء کیا ہے، اپنی زات سے زیادہ اپنی زمین کو عزیز سمجھا، کیچ سے کوئٹہ پہنچنے والے لانگ مارچ نے یہ پیغام دیا ہے کہ بحیثیت قوم ہم سودا نہیں ہوئے،انہوں نے کہا کہ بحیثیت قوم ہمیں مستقبل بنیادوں پر متحد ہونے کی ضرورت ہے اس کیلئے اپنے درمیان ہر قسم کی تفریق کو ختم کرنا ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ پہلی بار نہیں کہ لاپتہ افراد کے لواحقین نے دھرنا دیا ہو۔ انہوں نے کہا کہ آج لانگ مارچ کے شرکاء ریلی کی صورت میں اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کریں گے اور مطالبات کی منظوری تک تحریک جاری رہے گی۔