تربت لانگ مارچ نے کوئٹہ میں ڈیرے ڈال دیئے ہیں مطالبہ صرف یہی ہے کہ
بالاچ قتل کی عدالتی تحقیقات کرائی جائیں جو کہ قانونی اورآئینی مطالبہ ہے چونکہ بالاچ کو عدالت میں پیش کرنے کے بعد سی ٹی ڈی کی جانب سے مبینہ مقابلے کے دوران بالاچ کا قتل واضح طور پر ماورائے قانون عمل ہے، اس عمل سے نہ صرف تربت بلکہ ہر جگہ غم و غصہ پایا جاتا ہے کیونکہ اسی روش نے بلوچستان کے نوجوانوں کو بدظن کرکے رکھ دیا ہے۔ حیات بلوچ کی شہادت کو بھی کسی نے نہیں بھلایا ۔بلوچ نوجوانوں کی مسلسل جبری گمشدگیوں اور ماورائے قانون قتل سے فاصلے بہت بڑھتے جارہے ہیں ،
آج کا نوجوان، بزرگ مرد وخواتین سب اس طرح کے ظلم و زیادتیوں پر بلاخوف و خطر ہر فورم پر آواز بلند کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔
دھرنے کا ہجوم اس کی واضح مثال ہے کہ بلوچ ان ناانصافیوں سے اب تنگ آچکے ہیں سیاسی جماعتوں پر ان کو بھروسہ نہیں رہا اب وہ اپنے معاملات خود لیڈ کرتے دکھائی دیتے ہیں لہذا ریاست کو بھی اس پر ضرور سوچنا چاہئے کہ جس طرح جعلی مقابلوں میں نوجوانوں کو شہید کیا جارہا ہے، آئے روز مسخ شدہ لاشیں برآمد ہورہی ہیں اور بلوچ جوانوں اور طلباء کو لاپتہ کیا جارہا ہے،
یہ عمل نفرت اور خلیج کا سبب بن رہا ہے۔ ہر حکومت نے جب اقتدار کی بھاگ ڈور سنبھالی تو سب سے پہلا جملہ یہی ہوتا ہے کہ بلوچستان کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں پر ہم معافی مانگتے ہیں
مگر چند ہی ماہ کے دوران کوئی سانحہ رونما ہو جاتا ہے تو پھر سے پر بات کے استعمال پر آجاتی ہے حالانکہ دنیا اب تبدیل ہوچکی ہے کوئی بھی فریق کسی کو طاقت کے زورپر زیر نہیں کرسکتا تمام مسائل کا حل بات چیت سے ہی ممکن ہے مگر تربت جیسے سانحات اور جبری گمشدگیاں بڑی رکاوٹ ہیں ،رویوں میں تبدیلی اور سیاسی لچک کا مظاہرہ ضروری ہے
اور تربت سانحہ کی شفاف تحقیقات کرکے ملوث اہلکاروں کو سزا دینا ضروری ہے تاکہ اعتماد بحال ہوسکے نیز لاپتہ افراد کے مسئلہ حل بھی ضروری ہے کیونکہ اسی دھرنے کے اندر بالاچ کے قتل کا صرف غم و غصہ نہیں بلکہ مسخ شدہ لاشوں کی برآمدگی، جبری گمشدگیوں کا غصہ زیادہ حاوی ہے، ان دو اہم مسائل کو حل کئے بغیر بلوچستان کا سیاسی مسئلہ کبھی حل نہیں ہوگا۔