|

وقتِ اشاعت :   December 20 – 2023

پاکستان میں غیر قانونی تارکین وطن کے مسئلے کو بہت زیادہ منفی انداز میں مہم کے طور پر چلانا سراسرزیادتی ہے

،دنیا بھر کے جمہوری اور ترقی یافتہ ممالک میں مہاجرین کے حوالے سے واضح قوانین موجود ہیں، یورپی یونین ممالک میں مہاجرین جاتے ہیں تو باقاعدہ ان کا بائیو میٹرک کیاجاتا ہے

پھر انہیں کیمپوں میں رکھاجاتا ہے، امیگریشن کے دوران ان سے سوالات کئے جاتے ہیں کہ کس بنیاد پر وہ یہاں رہنا چاہتے ہیں۔ جنگ زدہ، معیشت زدہ ممالک کے افراد سمیت سیاسی پناہ کیلئے لوگ بیرون ملک جاتے ہیں مگر قانون سب پر یکساں لاگوہوتا ہے۔ تمام مہاجرین کے کیسز کوباقاعدہ قانون کے مطابق چلایاجاتا ہے

ان سے تمام ریکارڈ طلب کیا جاتاہے ۔ بہرحال ایک مکمل قانون موجود ہے مگر پاکستان نے افغان سرد جنگ سے لے کر نائن الیون تک افغان مہاجرین کی بہت زیادہ مہمان نوازی کی ،کبھی مہاجرین کے ساتھ ناروا سلوک نہیں اپنایا،

افسوس ہے کہ مہاجرین کی آڑ میں دہشتگردی کے بڑے واقعات رونما ہوئے اور اس کے شواہد بھی موجود ہیں کہ بعض افغان مہاجرین سہولت کاری اور براہ راست دہشت گردی میںملوث پائے گئے ہیں اس کے باوجود بھی پاکستان نے صبر وتحمل سے کام لیا اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان نے فرنٹ لائن کاکردار ادا کرتے ہوئے

جانی ومالی نقصانات اٹھائے۔ اب ریاست پاکستان نے یہ تہیہ کرلیا ہے کہ غیرقانونی تارکین وطن کو باعزت طریقے سے ان کے ملک بھیجا جائے گا جس کا سلسلہ جاری ہے مگر اس دوران منفی پروپیگنڈہ کیاجارہا ہے کہ

مہاجرین سے ناروا سلوک برتا جارہا ہے جبکہ ریاست کی جانب سے ڈیڈ لائن بھی دی گئی

مگر اب بھی بڑی تعداد میں مہاجرین یہاںموجود ہیں جن کے خلاف آپریشن جاری ہے۔ ریاست کے ذمہ داران ہر سطح پر تارکین وطن کے متعلق دنیا بھر کو بتارہے ہیں کہ پاکستان کو مہاجرین کی موجودگی میں کتنے مشکلات کا سامنا کرناپڑرہا ہے۔ نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے کہا ہے کہ پاکستان میں گزشتہ دہائیوں میں تقریباً آئرلینڈکی آبادی کے برابر غیرقانونی تارکین وطن آچکے ہیں، اتنی بڑی تعداد میں غیرقانونی تارکین کو قیام کی اجازت دے کر قومی سلامتی پر مزید سمجھوتہ نہیں کرسکتے۔غیرملکی خبررساں ادارے میں غیر قانونی تارکین وطن پر خصوصی تحریر میں نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے کہا کہ

اگست 2021 ء سے کم از کم 16 افغان شہریوں نے پاکستان میں خودکش حملے کیے، ہم نے جب بھی افغان حکومت سے سکیورٹی مسائل پر بات کی تو انہوں نے کہا اپنے معاملات درست کریں،لہذا اب پاکستان نے فیصلہ کر لیا ہے

کہ ہم اپنے معاملات درست کریں گے۔نگران وزیراعظم کا کہنا تھا کہ سوشل میڈیا پر غیرقانونی تارکین وطن کے انخلاء پرپاکستانی پالیسی پر بے بنیاد الزامات کی بھرمار ہے، ہمارا مقصد پاکستان کو محفوظ، پر امن اور خوشحال بنانا ہے، ہم نے فراخدلی سے تارکین وطن کی اتنی بڑی تعداد کو سنبھالا، مہمان نوازی پاکستان کے ڈی این اے میں شامل ہے۔ انوار الحق کاکڑ نے کہا کہ بہت سے غیر قانونی تارکین بلیک مارکیٹ میں کام کرتے ہیں، ٹیکس نہیں دیتے، یہ لوگ انڈر ورلڈ کے استحصال کا شکار بھی ہیں،

غیر قانونی افراد کے ساتھ احترام اور بہتر برتاؤ کے سخت احکامات ہیں، ہم نے تقریباً 79 ٹرانزٹ مراکز قائم کیے ہیں، مراکز میں مفت کھانا، پناہ گاہ اور طبی سہولیات فراہم کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ برطانیہ، فرانس، جرمنی، اٹلی اور مختلف ممالک میں بھی غیر قانونی تارکین کے مسئلے ہیں، ہم نے غیر قانونی تارکین کو رضاکارانہ طور پر رجسٹریشن اور وطن واپسی کے کئی مواقع دیے ۔نگراں وزیراعظم انوارالحق کاکڑ ،نگراں وزراء، عسکری قیادت سب غیرقانونی تارکین وطن کی واپسی کے حوالے سے ایک پیج پر ہیں جن کی واپسی کو یقینی بنانے کے لیے تمام وسائل کو بروئے کارلایا جارہاہے لہٰذامنفی پروپیگنڈے کے ذریعے مہاجرین پر سیاست کرنے کی بجائے ریاست کے مفادات کے تحفظ کے حوالے سے سوچا جائے،

ملکی سلامتی کے لیے سب کو ریاستی پالیسی کے ساتھ کھڑاہونا چاہئے ناکہ پروپیگنڈہ کرکے یہ تاثردیاجائے کہ ایک مخصوص قوم کے خلاف کارروائی کی جارہی ہے جو کہ سراسر غلط اور بے بنیاد پروپیگنڈہ ہے۔