|

وقتِ اشاعت :   December 20 – 2023

کوئٹہ : سینئر سیاست دان سابق سینیٹر نوابزادہ حاجی میر لشکری خا ن رئیسانی نے کہا ہے کہ پامیر اور قراقرم کے پہاڑوں سے کوئٹہ اور بلوچستان کے میدانوں تک پانی پہنچانے کا دعویٰ بلوچستان کے لوگوں کو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگانے کیلئے ہے ،

ملک میں انتخابات سات دہائیوں سے ہوتے آرہے ہیں مگر ہر بار بحرانوں میں اضافہ ہوا ہے ،دعا ہے اس بار طاقتور طبقات الیکشن کے نام پر سلیکشن نہ کریں اور عوام کے ووٹ کا احترام کرکے ملک اور صوبے کو شفاف انتخابات کی طرف لے کر جائیں، امید ہے اس بار بلوچستان کے عوام انتخابات میں اپنے ووٹ کی عزت کرکے اپنے صوبے کے وقار میں اضافہ کریں گے،

یہ بات انہوں نے منگل کو ایک ویڈیو پیغام میں کہی ،انہوں نے کہا کہ ملک اور صوبے میں انتخابات کا اعلان ہوچکا ہے سیاسی جماعتیں و شخصیات اور نام نہاد الیکٹبلز انتخابی میدان میں اتر رہے ہیں اور لوگوں کو بتارہے ہیں کہ وہ اس بار ان کے سر پر تاج رکھ کر ملک اور صوبے کو بحرانوں نجات دلائیں گے ،

انہوں نے کہا کہ ملک میں انتخابات سات دہائیوں سے ہوتے آرہے ہیں مگر ہر بار بحرانوں میں اضافہ ہوا ہے دعا ہے اس بار طاقتور طبقات الیکشن کے نام پر سلیکشن نہ کریں اور عوام کے ووٹ کا احترام کرکے ملک اور صوبے کو شفاف انتخابات کی طرف لے کر جائیں تاکہ عوام کے حقیقی نمائندے پارلیمنٹ میں جاکر پارلیمانی جمہوری نظام کے ذریعے مسائل حل کریں،انہوں نے کہا کہ بہت سی سیاسی جماعتیں جن کے پاس انتخابی منشور ، کارکردگی ، نظریہ اور فکر نہیں وہ ان نام نہاد الیکٹبلز کے پیچھے بھاگ رہے ہیں جو خود کسی سیاسی عمل کی پیداوار نہیں بلکہ سیاسی پراجیکٹ کے ایجاد کردہ ہیں۔

انہوں نے کہا کہ 2018ء کے انتخابات میں بلوچستان کی حقیقی آواز کو دبانے کیلئے صوبے میں تخلیق کی گئی پارٹی میں الیکٹبلز کو شامل کیا گیا ، صوبے کے بائیس سینیٹرز لیکن بلوچستان کے لوگوں کو یہ پتہ نہیں کہ کون ان کا نمائندہ ہے،

انہوں نے کہا کہ ایک طاقتور شخص کے نام پر بننے والی پارٹی کو بلوچستان کی نمائندہ جماعت قرار دینے کی کوشش کی گئی آج پھر اس پراجیکٹ کو تبدیل کرکے ایک بڑی تعداد کو مختلف پارٹیوں میں تقسیم کیا گیا تاکہ وہی لوگ دوبارہ اسمبلیوں میں جاکر بلوچستان کے وسائل اور ساحل کی لوٹ مار پر خاموش رہیں۔

انہوں نے کہا کہ بلوچستان کے لوگوں کو دوبارہ ٹرک کی بتی کے پیچھے لگایا جارہا ہے

،کچھ لوگوں کا دعویٰ ہے کہ وہ بلوچستان کو تاجکستان سے پانی لاکر دیں گے اگر جغرافیہ اور فاصلہ دیکھا جائے تو یہ دعویٰ پورا ہونا ناممکن ہے ،تاجکستان اور بلوچستان کے درمیان 1240 کلومیٹر کا فاصلہ ہے ، پامیر اور قراقرم کے پہاڑوں سے کوئٹہ اور بلوچستان کے میدانوں تک پانی پہنچایا جائے تو بھی یہ ناممکن ہے ایسے لوگ بلوچستان کے لوگوں کو سادہ اور بے وقوف بنانے کے بجائے اپنی کارکردگی بیان کریں، کراچی جو ساحل سمندر کے کنارے ہے پہلے اس کو ٹینکر مافیا سے نجات دلائیں ،

گوادر جسے بار بار گیم چینجر اور سی پیک کا سرچشمہ قرار دیا جاتا رہا ہے وہاں کے لوگ آج بھی پینے کے صاف پانی کے لئے احتجاج کرتے ہیں ، گوادر کے لوگوں کو کچھ ہی فاصلے پر واقع ڈیم سے پانی فراہم نہیں کیا جاتا اور پامیر کے پہاڑوں اور تاجکستان کے پہاڑوں سے پانی بلوچستان لانے کا دعویٰ کیا جارہا ہے،

انہوں نے مطالبہ کیا کہ جن کو بلوچستان اور یہاں کے لوگوں کے ساتھ ہمدردی ہے پہلے وہ سوئی گیس کی مد میں وفاق کے ذمے واجب الادا رقم لاکر دیں تاکہ بلوچستان میں ترقی و روزگار کے راستے کھلیں گوادر اور ساحلی پٹی پر سندھ سے آئے ہوئے ٹرالرز کی لوٹ مار کو روکیں ، بلوچستان کے حقوق دلائیں ، بلوچستان کے وہ وساحل جن سے پاکستان کا قرضہ اتارا جارہا ہے ان کا زرا بھی بلوچستان پر خرچ نہیں ہوا

وہ وسائل اگر بلوچستان کے لوگوں پر خرچ ہوں تو تاجکستان سے پانی لانے کی ضرورت نہیں پڑئے گی ،بلوچستان کے عوام ٹرک کی بتی کے پیچھے نہ لگیں اور اپنے ووٹ کی خود عزت کریں تاکہ آنے والے دنوں میں وہ ٹھیکیدار اور سیاسی درباری جو پچھلے دروازے سے پارلیمنٹ میں بیٹھنا چاہتے ہیں

ان کا راستہ روکا جاسکے اور ہم ایک پرامن سیاسی عمل کے ذریعے اپنے نمائندوں کو پارلیمنٹ میں بھیجیں۔ ان لوگوں کا احتساب کیا جائے جنہوں نے پیسے لیکر ٹھکیداروں کو سینیٹ بھیجا جو بلوچستان کے کسی ایشوء پر متحرک نہیں ہوتے انہوں نے کہا کہ جن لوگوں کو ووٹ دیا جائے ان سے پہلے یہ پوچھا جائے کہ گزشتہ پانچ سال کے دوران انہوں نے بلوچستان کی نمائندگی کیلئے ایوان بالا میں کس کو بھیجا اور کیا آئندہ آنے والے دنوں میں دوبارہ منتخب ہونے کے بعد وہ ایوان بالا کیلئے عوام کا دیا گیا مینڈیٹ کسی ٹھکیدار کو دیں گے۔