|

وقتِ اشاعت :   December 22 – 2023

بلوچستان سے لاپتہ افراد کی بازیابی اور بالاچ بلوچ کی مبینہ پولیس مقابلے میں ہلاکت کے بعد شروع ہونے والا لانگ مارچ اسلام آباد پہنچ چکی ہے

جہاں پہلے سے جاری لاپتہ افراد کے اہلخانہ کی جانب سے جاری احتجاجی دھرنے میں شریک ہوں گے اور آئندہ کے لائحہ عمل کا اعلان کریں گے۔ شرکاء نے 23 نومبر سے چھ دسمبر تک بلوچستان میں ہی تربت اور کوئٹہ میں دھرنا دیا تھاجس کے بعد مطالبات کی منظوری کے لیے 6 دسمبر سے اسلام آباد کی طرف مارچ شروع کیا گیا۔لانگ مارچ کے منتظمین اور بلوچ یکجہتی کمیٹی نے الزام عائد کیا ہے

کہ پولیس نے خضدار، قلات، مستونگ، کوئٹہ اور ڈیرہ غازی خان میں لانگ مارچ کا راستہ روکنے کی کوشش کی۔مارچ کی قیادت کرنے والی ماہ رنگ بلوچ کا کہنا ہے کہ ماورائے عدالت ہلاکتوں کو بند اور لاپتہ افراد کو رہا کیا جائے۔

اُن کا لانگ مارچ ایک تحریک ہے جس میں لاپتہ افراد کی رجسٹریشن بھی کی جا رہی ہے۔ماہ رنگ بلوچ کا کہنا ہے کہ حکومت کی جانب سے اُن کے پرامن لانگ مارچ کو روکنا ریاستی جبر ہے۔واضح رہے کہ

بلوچستان کے علاقے تربت میں سی ٹی ڈی کے ساتھ مبینہ مقابلے میں چار افراد کی ہلاکت پر لواحقین سراپا احتجاج ہیں۔ لواحقین کا دعویٰ ہے کہ مارے جانے والے افراد کو جبری طور پر لاپتہ کیا گیا تھا۔اس واقعے پر بلوچستان پولیس نے بالاچ بلوچ اور دیگر تین افراد کے قتل کا مقدمہ بالاچ کے والد مولا بخش کی مدعیت میں ایس ایچ او سی ٹی ڈی اور دیگر اہلکاروں کے خلاف درج کیا ہے۔

مقدمے میں قتل اور اقدامِ قتل کی دفعات شامل کی گئیں ہیں۔ سی ٹی ڈی پولیس نے گزشتہ ماہ مقابلے میں چار افرادکوہلاک کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔ مقابلے میں مارے جانے والے افراد کی شناخت بالاچ مولا بخش، سیف اللہ، ودود اور شکور کے ناموں سے ہوئی تھی۔

محکمہ انسدادِ دہشت گردی نے بیان میں دعویٰ کیا تھا کہ بالاچ کالعدم تنظیم کا رکن تھا۔سی ٹی ڈی کے مطابق بالاچ نے دورانِ تفتیش اعتراف کیا کہ وہ ٹارگٹ کلنگ اور آئی ای ڈی (بم) نصب کر چکا ہے

وہ بارودی مواد اپنے دیگر ساتھیوں کے پاس لے کر جا رہا تھا جنہوں نے موٹر سائیکل آئی ای ڈی پہلے سے تیار کر رکھی تھی اور تربت شہر میں دہشت گردی کی کارروائی کرنا چاہتے تھے۔بیان میں مزید دعویٰ کیا گیا تھا کہ

بالاچ کے انکشاف پر سی ٹی ڈی نے چھاپہ مار ٹیم تشکیل دی۔ وقوعے پر پہنچتے ہی دہشت گردوں نے فائرنگ شروع کر دی۔ بالاچ دہشت گردوں کی فائرنگ سے مارا گیا۔ واضح رہے کہ بلوچستان ہائی کورٹ نے تربت میں بالاچ بلوچ کے مبینہ طور پر حراست میں قتل سے متعلق فیصلہ سناتے ہوئے سی ٹی ڈی مکران کے چار اہلکاروں کو معطل کرنے کا حکم دیا ہے۔

بہرحال بلوچستان میں لاپتہ افراد کا مسئلہ دیرینہ ہے اس حوالے سے احتجاج کو دہائی بیت گئے مگر یہ مسئلہ حل نہیں ہوا کسی بھی حکومت نے اس اہم نوعیت کے معاملے کو سنجیدگی کے ساتھ نہیں لیایہ زیادتی ہے ۔

لاپتہ افراد کی جو فہرست عدالت میںجمع کرائی گئی ہے ، حکومتوں کے پاس گئی ہے

اس پر کمیٹیاں بھی بنائی گئیں ، لاپتہ افراد کے اہلخانہ سے باقاعدہ حکومتی ذمہ داران نے ملاقاتیں بھی کیں اور انہیں اس بات کی یقین دہانی کرائی کہ انصاف کے تقاضوں کو پورا کیاجائے گامگر اس سلسلے میں کوئی ایک بھی قدم ایسا نہیں اٹھایا گیا جس سے یہ تاثر ابھرے کہ ریاست اس اہم انسانی نوعیت کو مسئلے کو حل کرنا چاہتی ہے۔

بہرحال یہ مسئلہ حل تو کیا ہونا تھا بلکہ مزید پیچیدہ ہوتاجارہا ہے اب تربت واقعے نے جلتی پر تیل کا کام کیا ہے جس کے بعد احتجاج میں شدت آگئی ہے اور مطالبہ صرف یہی ہے کہ لاپتہ افراد کوبازیاب کرایاجائے اور تربت واقعہ کی شفاف تحقیقات کرائی جائیں۔ یہ قانون کے مطابق مطالبات ہیں جنہیں حل کرنا ضروری ہے تاکہ انصاف کے تقاضوں کو پوراکیاجاسکے۔