|

وقتِ اشاعت :   December 23 – 2023

اسلام آباد میں بلوچ یکجہتی مارچ کے شرکاء پر تشدد اور گرفتاریاں انتہائی غیر مناسب عمل ہے،

یہ سب کچھ نہیں ہونا چاہئے تھا جو ہوا اس سے ایک غلط تاثر بھی گیا ہے کہ

ماضی میں اسی اسلام آباد کی شاہراہوں پر تمام بڑی جماعتوں نے دھرنے دیئے، احتجاج ریکارڈ کرائے مگر ان پر کسی قسم کے طاقت کا استعمال نہیں ہوا نہ گرفتاریاں ہوئیں بلکہ مذاکرات کے ذریعے معاملات کو حل کرنے کی کوشش کی گئی گوکہ بات چیت کے حتمی نتائج مظاہرین کی خواہشات کے مطابق نہیں ہوتے مگر یہ تسلی انہیں مل جاتی ہے کہ

ان کااحتجاج ریکارڈ پرآگیا اور ایک اعلامیہ بھی جاری کیا جاتا ہے لیکن اب کے بار سب کچھ اس کے برعکس ہوا۔ بلوچ یکجہتی مارچ کے شرکاء کے خلاف اسلام آباد میں پولیس کریک ڈاؤن کے معاملے پر نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے مذاکراتی کمیٹی تشکیل دی تھی،

کمیٹی کی سربراہی فواد حسن فواد نے کی، کمیٹی میں وفاقی وزرا جمال شاہ اور مرتضیٰ سولنگی شامل تھے۔

حکومتی کمیٹی نے میڈیا کے سامنے بتایا کہ مذاکرات ہوئے اور اچھی پیش رفت ہوئی ہے، تمام مظاہرین کو رہا کردیا گیا ہے مگر رات گئے تمام مظاہرین پولیس کی حراست میں تھے جنہیں اسلام آباد سے کوئٹہ مسافر بسوں کے ذریعے منتقل کیا جانا تھا، جس کی ویڈیو بھی سامنے آئی اور اس دوران ایک سینئر صحافی کو پولیس کے ساتھ تلخ کلامی کرتے ہوئے بھی دیکھا جاسکتا ہے ۔

بہر حال جو کچھ میڈیا پر حکومتی کمیٹی نے بتایا اصل حقائق اس کے برعکس تھے۔ حکومتی کمیٹی کے بقول بلوچ ریلی کے شرکاء پر امن تھے چند نقاب پوش مقامی مشکوک لوگوں نے حالات خراب کرنے کی کوشش کی تو انہی پر ہاتھ ڈالا جاتا مگر خواتین، بچوں ،بزرگوں سمیت ریلی کے دیگر شرکاء کے ساتھ جو تشدد والی روش اپنائی گئی اسے کسی طور قانونی و آئینی عمل نہیں کہا جاسکتا ۔

اسلام آباد پر تشدد واقعے کے خلاف بلوچستان بھر میں احتجاجی مظاہرے ہوئے ،دھرنے دیئے گئے یقینا اس کا ردعمل آنا فطری عمل ہے۔ اب یہ تاثر زیادہ ابھر رہا ہے کہ بلوچوں کے پر امن احتجاج کو بھی برادشت نہیں کیا جاتا اس پر بھی طاقت کا استعمال کیا جاتا ہے ۔ بہرحال معاملات اس نہج تک جن وجوہات کی بنیاد پر پہنچیں ہیں انہیں جب تک حل نہیں کیا جائے گا

یہ مسئلہ ہر ایک دو ماہ کے بعد دوبارہ سر اٹھائے گا ۔ لہذا طاقت کا استعمال مسئلے کا حلنہیں بلکہ آئینی اورقانونی طریقے سے بلوچستان کے لاپتہ افراد سمیت دیگر مسائل کا حل نکالا جاسکتا ہے کیونکہ تا دیر اس مسئلے کو لٹکایا نہیں جاسکتا۔