بلوچستان میں عام انتخابات کے دوران بڑی سیاسی جماعتوں کے درمیان کانٹے کا مقابلہ متوقع ہے، میدان میںپیپلزپارٹی، ن لیگ، جمعیت علمائے اسلام کے مضبوط امیدوارہونگے
جبکہ قوم پرست ، باپ سمیت دیگر جماعتیں وہ پوزیشن حاصل نہیں کرسکیں گی
جس طرح ماضی میں انہیں مواقع میسر آئے چونکہ موجودہ بلوچستان کے حالات میں قوم پرستوں کے حلقوں میں ان کے خلاف سخت گیر رائے عامہ بنی ہوئی ہے اس کی وجہ ماضی میں کئے گئے وعدے ہیں جن میں بلوچستان کے جملہ مسائل کو حل کرنے کا کہا گیا جن میں ایک بھی پورا نہیں ہوابلکہ لوگوں کی مشکلات مزید بڑھ گئی ہیں اور ان کے پاس ایسے امیدوار بعض حلقوں میں موجود نہیں جو بڑی جماعتوں کے امیدواروں کا مقابلہ کرسکیں۔ پاکستان پیپلزپارٹی میں اہم شخصیات نے شمولیت اختیار کرلی ہے
اسی طرح ن لیگ نے بھی الیکٹیبلز کو شامل کرلیا ہے جبکہ پشتون اور بلوچ بیلٹ میں جے یوآئی مضبوط پوزیشن میں موجود ہے ۔
بہرحال بی این پی ، نیشنل پارٹی، بلوچستان عوامی پارٹی کا بلوچستان کی صوبائی اور قومی اسمبلی میں نشستیں جیتنے کی شرح بہت کم دکھائی دے رہی ہے ،ان کاکردارایک مخلوط حکومت میں چھوٹا پاکٹ بننے تک محدود ہوچکا ہے حکومت بنانے میں کلیدی کردار نہیں ہوگااور نہ ہی مرکز میں ان کی ضرورت اب بڑی جماعتوں کو پڑے گی۔
بلوچستان میں دنگل پیپلزپارٹی، ن لیگ اور جمعیت کے درمیان ہی لگے گا۔ بلوچستان کے سیاسی زمینی حقائق موجودہ حالات میں مکمل طور پر تبدیل ہوچکے ہیں کیونکہ موجودہ بلوچ یکجہتی کی تحریک سے نظریں کسی صورت نہیں چرائی جاسکتیں،
اس کے اثرات بلوچستان کی سیاست پر براہ راست پڑ رہے ہیں اور اس سے متاثر قوم پرست جماعتیں ہی ہورہی ہیں جن کا دعویٰ ہمیشہ بلوچستان کے لاپتہ افراد کی بازیابی، ساحل وسائل پر اختیارات سمیت دیگر اہم مسائل شامل ہیں جو ان کے منشورمیں رہا ہے
اور یہ وعدے برملا ہر جگہ وہ کرتے رہے ہیں مگر نتیجہ صفر ہی نکلا ہے۔ اب اسلام آباد مارچ کے دوران کا اندازہ ہی لگائیں کہ
کسی بھی قوم پرست جماعت کی اس میں کوئی خاص شمولیت دکھائی نہیں دے رہی ہے اور نہ ہی ان کی قیادت سامنے نظر آرہی ہے بلکہ خواتین، بزرگوں اور بچوں نے معاملات خوداپنے ہاتھوں میں لے چکے ہیں، تمام تر سخت فیصلے بھی خود کررہے ہیں
جبکہ ردعمل کا بھی سامنا خود کررہے ہیں، اس حوالے سے قوم پرست اور سیاسی جماعتوں کا کوئی بھی کردار دکھائی نہیں دے رہا ہے۔
بہرحال پیپلزپارٹی، ن لیگ اور جمعیت علمائے اسلام کے امیدوار بھی بڑے مارجن سے ووٹ نہیں لینگے کیونکہ رائے عامہ اورزمینی حقائق سب کے سامنے ہیںکہ بلوچستان کے اہم مسائل کو سب جماعتوں نے نظرانداز کیا اور کبھی اس کے حل کیلئے سنجیدہ کوششیں نہیں کیں،
اب بھی ایک دو بیانات کے ذریعے بلوچستان کے اس اہم مسئلے کو حل کرنے کی باتیں کی جارہی ہیں جو حسب روایت معمول کے مطابق ہے۔ بلوچستان کامسئلہ دیرینہ ہے اس کے اندر موجود تمام مسائل کو حل کئے
بغیر مظاہروں میں کمی نہیں آئے گی ریاست کی مکمل ذمہ داری بنتی ہے کہ آئینی اور قانونی مطالبات بلوچ یکجہتی کمیٹی کے ہوں یا پھر بلوچستان کے جائز حقوق کا مسئلہ ہو اسے سنجیدگی کے ساتھ حل کرنا ہوگا ۔ بلوچستان کو دیوار سے لگاکر کچھ ہاتھ نہیں آسکتا ،بارہا بلوچستان کے مسائل کی نشاندہی کی گئی ہے کہ ان پر توجہ دی جائے تاکہ بلو چستان کے عوام کے اندر موجود بے
چینی اور بے یقینی کا خاتمہ ممکن ہوسکے ۔ اب دیکھتے ہیں کہ عام انتخابات میں نئی بننے والی صوبائی اور وفاقی حکومت بلوچستان کے مسائل کے حل کیلئے کیا اقدامات اٹھائے گی ۔امید تو یہی ہے کہ کچھ بہتر کیاجائے گا تاکہ یہ دیرینہ مسائل حل ہوسکیں۔