ملک میں عام انتخابات کے لیے سیاسی جماعتوں کی جانب سے الیکشن مہم شروع ہوچکی ہے ،
تمام بڑی سیاسی جماعتوں کی جانب سے خوشحال پاکستان کے اعلانات کئے جارہے ہیں اور یہ باور کرایاجارہا ہے کہ
ان کی حکومت بنے گی تو عوامی مسائل کا حل ان کی ترجیحات میں شامل ہوگی، معیشت کو مستحکم اور دہشت گردی کا خاتمہ کرینگے، غریبوں کو تمام تر بنیادی سہولیات، روزگار ان کی دہلیز پر دیاجائے گا ۔ بہرحال ہر انتخابات کے دوران سیاسی جماعتیں بڑے بڑے دعوے کرتی ہیں ۔
ن لیگ کا دعویٰ ہے کہ ملک میں خوشحالی ان کے دور میں آئی، بدامنی ان کے دور میں ختم ہوئی اور یہ شکوہ ن لیگ کے سربراہ میاںمحمد نواز شریف کرتے ہیں
کہ ان کی حکومت کو سازش کے ذریعے ختم کیا گیا جس کی وجہ سے ملک بحرانات کا شکار ہوا، اگر ہماری چلتی حکومت کو چلتانہ کیاجاتا تو آج پاکستان بیرونی قرضوں کا محتاج نہیں ہوتا۔ ن لیگ کے ساتھ نئی بننے والی جماعتیں جو پہلے کسی اور جماعت کے ساتھ وابستہ تھیں وہ بھی ترقی اور خوشحالی لانے کا دعویٰ کررہی ہیں
اور ان کا بھی شکوہ یہ ہے کہ انہیں اس جماعت کے اندر اس طرح کام کرنے نہیں دیا گیا خاص کر پی ٹی آئی سے رائیں جدا کرنے والی سیاسی شخصیات یہ باتیں کررہی ہیں کہ پی ٹی آئی میں صرف ون مین شو تھا اسی کے فیصلے ہوتے تھے
ہماری باتیں نہیں سنی جاتی تھیں،جو مسائل پیداہوئے پی ٹی آئی دور میں اس کا ذمہ دار چیئرمین پی ٹی آئی ہے۔
دوسری جانب چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے انتخابی منشور کا اعلان کرتے ہوئے عوام سے 10 وعدے کیے۔گڑھی خدا بخش میں بینظیر بھٹو شہید کی سولہویں برسی کے جلسے سے خطاب میں بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ اگر پیپلزپارٹی اقتدار میں آئی تو سب سے پہلے ان کی حکومت ہر پاکستانی کی آمدنی کو دوگنا کرنے کا پروگرام دے گی
اور 5 سال میں اس پر عمل درآمد ہوگا۔بلاول نے اعلان کیا کہ تین سو یونٹ استعمال کرنے والوں کو مفت بجلی دیں گے، پاکستان پیپلز پارٹی ”بھوک مٹائو پروگرام” شروع کرے گی اس کے ساتھ دیگر بڑے اعلانات بھی بلاول بھٹو زرداری نے کئے ۔
بلاول بھٹو زرداری کا مخالفین کو نشانے پر لیتے ہوئے کہنا تھاکہ آج بھی کچھ لوگ کچھ اور لوگوں کے کاندھوں پر سیاست کرنے کی کوشش کر رہے ہیں،
عوام 8 فروری کو تیر پر مہر لگا کر میڈیا پر چلنے والے ڈرامے کا جواب دیں گے، پارٹی لیڈر اور کارکنان الیکشن کی تیاری کریں، دما دم مست قلندر ہوگا۔بلاول نے مسلم لیگ ن پر تنقیدکرتے ہوئے کہا کہ ہم 18 مہینے جن کے ساتھ اتحادی حکومت میں رہے
، انہیں معیشت، دہشت گردی اور جمہوریت سے دلچسپی نہیں تھی، مہنگائی، بیروزگاری، غربت اور دہشت گردی کے مقابلے کے لیے آپس کی لڑائیاں چھوڑنا پڑیں گی،
ایک سیاست دان جیل سے نکلنے اور دوسرا جیل سے بچنے کے لیے الیکشن لڑ رہا ہے، عوام، مہنگائی، غربت اور بیروزگاری کا خاتمہ چاہتے ہیں۔بہرحال سیاسی جماعتوں کی جانب سے خوش کن اعلانات کئے جارہے ہیں اپنے منشور کو سامنے لارہے ہیں اب عام انتخابات میں عوام کو کس کو مینڈیٹ دیں گے یہ 8فروری کو ہی پتہ چل جائے گا مگر ایک بات تمام سیاسی جماعتوںکوذہن نشین کرنی چاہئے کہ
آج عوام مہنگی بجلی اور گیس کے ہاتھوں انتہائی پریشان ہیں، مہنگائی تاریخ کی بلندترین سطح پر ہے بیروزگاری کی شرح بہت زیادہ ہے ، پارٹی کارکنان کے علاوہ عام لوگوں کے اندر غم وغصہ بہت زیادہ ہے یہ کہنا بھی بڑامشکل ہے کہ ووٹ بڑی شرح میں ڈالی جائے گی شاید ماضی کی نسبت کم شرح پر سیاسی جماعتوں کو ووٹ پڑیں مگر عوام کو ووٹ دینے کی جانب راغب کرنے اور اپنی حکومت پر اعتبار کرانے کے لیے کیے گئے اعلانات اور دعوؤں کو عملی جامہ پہناناہوگا۔