بلوچستان میں سوئی گیس کمپنی کی روش سے سب ہی واقف ہیں بلوچستان کے اسمبلی فلور پر بھی سوئی گیس کمپنی کے رویے کے خلاف حکومت اور اپوزیشن کی جانب سے متعدد قرارداد پیش کی جاچکی ہیں
کہ بلوچستان میں گیس فراہمی کے حوالے سے کمپنی کا رویہ انتہائی ظالمانہ ہے ہیڈآفس بھی بلوچستان کے دارالحکومت میں نہیں بلکہ کراچی شہر میں ہے حالانکہ سوئی بلوچستان میں ہے گیس یہاں سے نکال کر دیگر صوبوں اور ان کے بڑے شہروںکو بغیر کسی رکاوٹ کے دی جارہی ہے
مگر بلوچستان کے عوام اس سے مکمل محروم ہیں۔ متعدد بار سوئی گیس کے ایم ڈی سمیت دیگر ذمہ داران کو اسمبلی میں طلب بھی کیا گیا مگر اس کے باوجود بھی ان کی ہٹ دھرمی برقرار ہے۔ اب شدید سرد موسم کے دوران بلوچستان میں گیس مکمل طور پر غائب ہے لوگ شدید سردی سے بچاؤ کے لیے سلینڈر استعمال کرتے ہیں جو کہ انتہائی ِخطرناک ہے
دھماکے سے جانیں ضائع ہوتی ہیں لکڑیوں کے استعمال سے شہری مختلف بیماریوں میں مبتلا ہوتے ہیں، گیس لوڈشیڈنگ کے دوران اموات ہوتی ہیں بلوچستان کے ساتھ سوئی گیس کمپنی کی زیادتیاں دہائیوںسے چلتی آرہی ہیں۔
بلوچستان کے منتخب نمائندگان کے شدید احتجاج کے باوجود بھی سوئی گیس کمپنی ٹس سے مس نہیں ہوتی جبکہ بلوچستان بھر میں آئے روز گیس بندش اور گیس لوڈشیڈنگ کے خلاف دھرنے، احتجاجی مظاہرے سوئی گیس آفس سمیت شاہراہوں پر کئے جاتے ہیں
لیکن لوگوں کے احتجاج کا اثر بھی سوئی گیس کے بے حس ذمہ داران پر نہیں ہوتا کہ اس شدید سردی میں بلوچستان کے عوام کس طرح سے اپنی زندگی گزار رہے ہیں۔ گیس کنکشن بند کردی گئی ہے گیس پائپ لائنیں جہاں بچھائی گئیں ہیں
وہاں بھی گیس فراہم نہیں کی جاتی۔ سوئی جہاں سے گیس نکل رہی ہے وہاں کے لوگ بھی اس سے محروم ہیں اس سے بڑی اور زیادتی کیا ہوسکتی ہے
۔ المیہ تو یہ ہے کہ وفاقی حکومتوں نے کبھی بھی اس اہم نوعیت کے مسئلے پر سوئی گیس انتظامیہ کے خلاف شدید ردعمل نہیں دیا اور نہ ہی ان کی سرزنش کے لیے مؤثر اقدامات اٹھائے ،پھر دعوے ایسے کئے جاتے ہیں
کہ ان بڑی سیاسی جماعتوں کی حکومت آتے ہی وہ بلوچستان کا نقشہ ہی تبدیل کردینگے۔ بلوچستان کے عوام ہرقسم کی سہولیات سے محروم ہیں آج بھی پتھر کے زمانے میں زندگی گزار رہے ہیں۔
بلوچستان کے عوام پر ترس بھی نہیں کھایاجاتا کہ جن کے ساتھ دہائیوں سے زیادتی ہورہی ہے ان کے مسائل کو ترجیحی بنیادوں پر حل کیاجاتا
۔انہی رویوں کی وجہ سے بلوچستان اور اسلام آبادکے درمیان خلیج بڑھی ہے تمام تر حالات اور ان کے اسباب سے واقفیت کے باوجود بھی اسلام آباد میں بیٹھے لوگ اپنے آپ کو انجان بنا کر پیش کرتے ہیں کہ بلوچستان کامسئلہ کیا ہے؟
اس حیران کن سوال پر بلوچستان کے عوام تلملااٹھتے ہیں کہ ان کے مسائل سے اسلام آباد کو کوئی سروکار نہیں صرف یہاں کے میگامنصوبوں سے وفاق کو اپنا منافع چاہئے، گیس کی مد میں واجب الادا رقم تک ادانہیں کی جاتی
پھر ترقی کی سوچ بلوچستان کے عوام کے اندر کیسے آسکتی ہے۔ اب حال ہی میں ایک رپورٹ کے مطابق سوئی سدرن گیس کمپنی نے نومبر کے بعد ما ہ دسمبر2023ء میں بھی صارفین کو فکسڈ اور اسٹینڈرڈ چا رجز کی مد میں کروڑوں کا ٹیکہ لگا دیا ہے ،ایک با ر پھر صارفین کو فکسڈ،اسٹینڈرڈ چارجز کی مد میںبھاری بھر کم بل بھیج دئیے گئے ہیں یہ توان کا رویہ ہے
، اس پر سپریم کورٹ کو نوٹس لینا چاہئے کہ بلوچستان کے ساتھ اس طرح کی زیادتی کیوں ہورہی ہے؟ عدالت سوئی گیس انتظامیہ کو طلب کرے ان کی سرزنش کرے شاید ان کا قبلہ درست ہوجائے۔