سیاستدانوں کی تاحیات نااہلی کا معاملہ سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے ماضی کے سپریم کورٹ نے آرٹیکل 62ون ایف کے تحت سیاستدانوں کی تاحیات نااہلی کا فیصلہ دیا تھا
جس سے نواز شریف، جہانگیرترین متاثر ہوئے تھے جو انتخابات،
سیاسی سرگرمیوں میں کسی طور بھی حصہ لینے کے اہل نہیں رہے تھے مگر پی ڈی ایم کی اتحادی حکومت نے آرٹیکل میں ترمیم کرکے اسے منظور کرایا جس کے بعد یہ معاملہ ایک بار پھر سپریم کورٹ آگیا ہے ۔ بہرحال ماضی کے سپریم کورٹ کے ججز پر مبینہ طور پر یہ الزام لگایاجاتارہا ہے
کہ انہوں نے ایک مخصوص جماعت کو اور اس کے سربراہ کو لاڈلا بنایا اور ایک مکمل پلان کے مطابق تاحیات نااہلی کا فیصلہ دیاتاکہ اس کی وزارت عظمیٰ تک پہنچنے کا راستہ آسان ہوسکے۔ اس کے ساتھ دیگر فیصلوں کو بھی سیاستدانوں نے متنازعہ قرار دیا جبکہ سپریم کورٹ کے اندر موجود ججز بھی ماضی میں منقسم دکھائی
دیئے حالانکہ یہ کسی بھی ملک کے لیے کوئی نیک شگون نہیں کہ ادارے میںموجود سربراہان یا اہم منا صب پر بیٹھی شخصیات متنازعہ ہوجائیں چونکہ عدل کا ادارہ کسی بھی ریاست کے لیے کلیدی کردار ادا کرتا ہے اور وہ آئین و قانون کے مطابق چلتا ہے
جبکہ یہ بات بھی ذہن نشین کرلینی چاہئے کہ سب سے بڑا آئینی فورم پارلیمان ہے جہاں قانون سازی کی جاتی ہے اور عوامی مفاد عامہ کے تحت منتخب نمائندگان اپنی رائے
قانون سازی میں دیتے ہیں ۔افسوس یہ ہے کہ ملک میں اداروں کے اندر چھیڑ چھاڑ کا سلسلہ بھی سیاستدانوں نے شروع کیا اور پھراس کے نقصانات کو ذاتی طور پر بھگتابھی ہے۔ المیہ یہ ہے کہ تاریخ سے کبھی بھی سبق نہیں سیکھا گیا اقتدار کی رسہ کشی ،اختیارات کی جنگ کے لیے سیاستدانوں نے اپنے سیاسی مخالفین کو ہدف بنایا اور اداروں کو درمیان میں لایا
جس کی وجہ سے ملک میں عدم استحکام پیدا ہوا مگر ساتھ ہی جمہوری عمل کو بھی بہت زیادہ نقصان پہنچا ۔
کیا سیاستدان ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھتے ہوئے اقتدار میں رہتے ہوئے یا پھر اپوزیشن میں ہوتے ہوئے اداروں پر اثرانداز ہوکر اپنا کھیل جاری رکھیں گے یا نہیں اس پر فی الحال کچھ نہیں کہا جاسکتا مگر سیاسی جماعتوں نے ہی ملک کو بہتری کی سمت لے جانے کے لیے اپنا مرکزی کردار ادا کرنا ہوگا وگرنہ قانونی اور آئینی معاملات سمیت آپسی جھگڑوں کے ذریعے ملک میں سیاسی اور معاشی استحکام کبھی نہیں آسکتا۔
بہرحال سپریم کورٹ میں آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت سیاستدانوں کی تاحیات نااہلی سے متعلق کیس میں عدالت نے سوال اٹھایا کہ کسی شخص کو ایک بار سزا مل گئی تو بات ختم کیوں نہیں ہوجاتی؟ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ سزا کے بعد کبھی انتخابات نہ لڑسکے؟
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائزعیسٰی کی سربراہی میں 7 رکنی لارجربینچ نے کیس کی سماعت کی جس میں جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس امین الدین خان، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس مسرت ہلالی تھے۔سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس نے پوچھا کہ اٹارنی جنرل آپ کا مؤقف کیا ہے؟ الیکشن ایکٹ چلنا چاہیے یاسپریم کورٹ کے فیصلے؟ اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ عدالت سے درخواست ہے کہ
تاحیات نااہلی کے فیصلے کا دوبارہ جائزہ لے جبکہ الیکشن ایکٹ کی تائید کروں گا کیونکہ یہ وفاق کا بنایا گیا قانون ہے۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت تاحیات نااہلی کی تشریح کے فیصلے کا دوبارہ جائزہ لیا جائے۔اس دوران میربادشاہ قیصرانی کے خلاف درخواست گزارکے وکیل ثاقب جیلانی نے بھی تاحیات نااہلی کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ میں نے 2018 میں درخواست دائرکی جب 62 ون ایف کے تحت تاحیات نااہلی کا فیصلہ آیا، اب الیکشن ایکٹ میں سیکشن232 شامل ہوچکا ہے، الیکشن ایکٹ میں سیکشن 232 آنے پرتاحیات نااہلی کی حد تک استدعا کی پیروی نہیں کررہا۔
چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کیا الیکشن ایکٹ کی ترمیم کو کسی نے چیلنج کیا؟ تمام ایڈووکیٹ جنرلز اٹارنی جنرل کے مؤقف کی تائید کرتے ہیں یا مخالفت؟ چیف جسٹس کے پوچھنے پر تمام ایڈووکیٹ جنرلز نے الیکشن ایکٹ میں ترمیم کی اٹارنی جنرل کے مؤقف کی تائید کردی۔
چیف جسٹس نے سوال کیا کہ آرٹیکل 62 اور63 میں فرق کیا ہے؟ اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ آرٹیکل 62 ممبران کی اہلیت جبکہ 63 نااہلی سے متعلق ہے، آرٹیکل62 میں نااہلی کی مدت درج نہیں بلکہ یہ عدالت نے دی۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ جب تک عدالتی فیصلے موجود ہیں تاحیات نااہلی کی ڈکلیئریشن اپنی جگہ قائم ہے، اس پر جسٹس قاضی فائز نے کہا کہ الیکشن ایکٹ بھی تو لاگو ہوچکا اور اس کو چیلنج بھی نہیں کیا گیا۔
اس دوران جسٹس منصور نے سوال کیا کہ سوال یہ ہے کہ کیا ذیلی آئینی قانون سازی سے آئین میں ردوبدل ممکن ہے؟ کیا سپریم کورٹ کے فیصلے کو ختم کرنے کیلئے آئین میں ترمیم کرنی پڑے گی؟ کیا آئین میں جو لکھا ہے اسے قانون سازی سے بدلا جاسکتا ہے؟ قتل اور غداری جیسے سنگین جرم میں کچھ عرصے بعد الیکشن لڑ سکتے ہیں لیکن معمولی وجوہات کی بنیاد پرتاحیات نااہلی غیرمناسب نہیں لگتی؟ ایک شخص کو ایک بار سزا مل گئی تو بات ختم کیوں نہیں ہوجاتی؟ ایسا کیسے ہوسکتا ہے کہ سزا کاٹ لینے کے بعد بھی کبھی انتخابات نہ لڑسکے؟دوران سماعت چیف جسٹس نے کہا کہ
اس کیس سے یہ تاثرنہ لیا جائے کہ عدالت کسی مخصوص جماعت کی حمایت کررہی ہے، ایک آئینی مسئلہ ہے جس کو ایک ہی بار حل کرنے جارہے ہیں، کوشش ہوگی کہ
4 جنوری کو کیس کی سماعت مکمل کریں اور مشاورت کے بعد عدالتی معاون بھی مقرر کرسکتے ہیں۔ بہرحال موجودہ سپریم کورٹ پر تمام سیاسی جماعتوں کا اعتماد ہے اور یہ رائے پائی جاتی ہے کہ ججز مکمل طور پر انصاف کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے فیصلہ کرینگے اور یہ تسلسل صرف ایک دور میں نہیں ہونا چاہئے بلکہ اداروں کو اپنے آئینی حدود میں رہتے ہوئے کام کرنا چاہئے وہ بھی ادارے کو کسی کے ذاتی خواہشات کی تکمیل کے لئے استعمال کرنے سے گریز کریں کیونکہ آئینی اداروں کا ملک میں جمہوریت کو مضبوط کرنے کے حوالے سے مرکزی کردار ہوتا ہے اگر وہ ذمہ داری نہیں نبھائیں گے تو مزید خرابیاں پیدا ہونگی جس کا نقصان ملک اور عوام کو ہی ہوتا ہے ۔ امید کرتے ہیں کہ آئینی ادارے اپنے فرائض کو ایمانداری سے نبھائینگے تاکہ ان پر سوالات نہ اٹھ سکیں۔