|

وقتِ اشاعت :   January 7 – 2024


اسلام آباد: نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے کہا ہے کہ 9مئی واقعات کی تحقیقات مکمل ہونے پر بذریعہ آئی ایس پی آر قوم سے شیئر کی جائیں گی،

9مئی واقعات کی سزا پوری پارٹی کو نہیں صرف ذمہ داروں کو ملنی چاہیے، ہوسکتا ہے فوجی ٹرائل کے نتائج آنے والی حکومت کے دورانیے میں سامنے آئیں،2013اور 2018میں پی ٹی آئی کو ووٹ دیا تھا،اب نہیں دوں گا،پی ٹی آئی کو ووٹ اس امید پر دیا تھا کہ گورننس چیلنجز حل کر پائے گی،

بدقسمتی سے 3سے ساڑھے 3سال میں ہماری رائے تبدیل ہوئی،پی ٹی آئی کے پاس کوئی ٹیم تھی نہ کوئی تیاری تھی،9فروری کی صبح تک عوام کو پتہ لگ جائے گا کس کے حق میں فیصلہ دیا،

الیکشن نتائج آتے ہی میرے خیال میں بے یقینی ختم ہوجائے۔نجی ٹی وی چینل کوانٹرویودیتے ہوئے انوار الحق کاکڑنے کہاکہ حکومت کس کی بنے گی؟

یہ فیصلہ عوام کو کرنا ہے۔

انہوںنے کہاکہ نگراں حکومت ملک میں بہتری کیلئے اقدامات کر رہی ہے، عوام انتخابات میں اپنے نمائندے منتخب کریں گے، ہم تیار ہوں یا نہ ہوں، عوام نے فیصلہ کرنا ہے۔ایک سوال پر نگران وزیراعظم نے کہاکہ کیا بانی پی ٹی آئی 9مئی میں براہ راست ملوث ہیں؟ ایسی کوئی بات میرے علم میں نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ 9مئی کے الزامات پر روپوش افراد اور لیڈر جب تک سرینڈر نہیں کریں گے، ان کی سیاسی سرگرمیوں میں رکاوٹیں رہیں گی۔

نگراں وزیراعظم نے کہا کہ انہیں نہیں پتہ کہ بانی پی ٹی آئی ذاتی طور پر 9مئی واقعات میں ملوث ہیں یا نہیں۔انہوںنے کہاکہ رائے قائم کرنے سے قبل سمجھتا ہوں یہ عدالتی عمل ہے، ان لوگوں کو خود فیصلہ کرنا ہے کہ کون سی راہ اپنانی ہے۔

انوار الحق کاکڑ نے کہا کہ 9مئی واقعات کی تحقیقات مکمل ہونے پر بذریعہ آئی ایس پی آر قوم سے شیئر کی جائیں گی۔انہوں نے کہا کہ 9مئی واقعات پر سزا یا جزا کا تعین کرنا انٹیلی جنس رپورٹس پر نہیں ہوگا،

یہ کام عدالت کا ہے۔نگراں وزیرعظم نے کہا کہ 9مئی واقعات کی سزا پوری پارٹی کو نہیں صرف ذمہ داروں کو ملنی چاہیے،

ہوسکتا ہے فوجی ٹرائل کے نتائج آنے والی حکومت کے دورانیے میں سامنے آئیں۔انہوںنے کہاکہ حکومت کس کی بنے گی،

یہ فیصلہ عوام کو کرنا ہے جس کی بھی بنے نگراں حکومت کے پاس اسے اقتدار منتقل کرنے کے سوا کوئی آپشن نہیں۔سوال کیاگیاکیا ن لیگ کو اقتدار میں لانے کا فیصلہ ہوچکا ہے؟

جواب میں نگراں وزیراعظم نے کہاکہ ان کے علم میں ایسی کوئی بات نہیں ہے۔

انوار الحق کاکڑ نے کہا کہ نگراں وزیراعظم کیلیے لیڈر آف دی ہائوس اور اپوزیشن لیڈر نے میرے نام پر اتفاق کیا تھا،

مجھے اس حوالے سے راجا ریاض نہیں بلکہ وزیراعظم ہائوس نے رابطہ کرکے بتایا۔سوال کیا گیاکہ کیا نگراں حکومت تیار ہے کہ پی ٹی آئی اکثریت سے جیت جائے تو حکومت منتقل ہوجائے؟

اس پر وزیراعظم نے جواب دیا کہ ہم تیار ہوں یا نہ ہوں فیصلہ تو عوام نے کرنا ہے،

کسی کی بھی حکومت تشکیل ہو ہمیں ٹرانسفر کرنا ہے،ہمارے پاس کوئی آپشن ہی نہیں،

ہمارا کسی کے ساتھ ذاتی مسئلہ نہیں، 2013اور 2018میں پی ٹی آئی کو ووٹ دیا تھا۔انوار الحق کاکڑ سے پوچھا گیاکہ کیا اب پی ٹی آئی کو ووٹ دیں گے؟

اس پر انہوں نے جواب دیا کہ اب پی ٹی آئی کو ووٹ نہیں دوں گا،اب خیالات بدل گئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ کئی پارٹیوں کو موقع ملا پاکستان کے گورننس چیلنج حل نہیں کرسکے، پی ٹی آئی کو ووٹ اس امید پر دیا تھا کہ گورننس چیلنجز حل کر پائے گی۔نگراں وزیراعظم نے کہا کہ بدقسمتی سے 3سے ساڑھے 3سال میں ہماری رائے تبدیل ہوئی،پی ٹی آئی کے پاس کوئی ٹیم تھی نہ کوئی تیاری تھی۔

انہوں نے کہاکہ سیاسی رویے کیلیے دانش مندی چاہیے، جس کی کمی دکھائی دے رہی ہے۔

انوار الحق کاکڑ نے کہا کہ 9فروری کی صبح تک عوام کو پتہ لگ جائے گا کس کے حق میں فیصلہ دیا،الیکشن نتائج آتے ہی میرے خیال میں بے یقینی ختم ہوجائے۔

انہوں نے کہا کہ میر غوث بخش بزنجو میرے دادا کے کلاس فیلو تھے،ان کا اپنا مقام تھا، انہیں کسی نے غدار نہیں کہا اور نہ ہی سمجھا،

میرا ان کے خاندان کے ساتھ 3نسلوں کا رشتہ ہے۔نگراں وزیراعظم نے کہاکہ سردار عطا اللہ مینگل سے متعلق بھی میرا نہیں خیال ایسی کوئی بات ہوئی ہو، ہاں اکبر بگٹی کا معاملہ تھوڑا سا مختلف ہے۔انہوںنے کہاکہ بدقسمتی سے ان کی موت ایسے حالات میں ہوئی،

جہاں وہ اور ریاست مسلح ہو کر ایک دوسرے کے سامنے آئے۔انوار الحق کاکڑ نے کہا کہ ضروری نہیں کہ انہیں غداری کے ٹائٹل سے منسوب کریں، یہ ضرور ہے کہ اکبر بگٹی کی موت پرتشدد انداز میں ہوئی۔

انہوں نے کہا کہ جب تشدد کا راستہ اپناتے ہیں تب بہت ایسے موقع ہوتے ہیں کہ بعد میں لوگ افسوس کرتے ہیں،

دوسری جانب سے بھی ہوسکتا ہے، ریاست کی جانب سے بھی ہوسکتا ہے۔نگراں وزیراعظم نے کہاکہ یہ سوال بھی کیا جاسکتا ہے کیا اس عمر میں مسلح جدوجہد کرنا درست تھی؟یہ تمام چیزیں ہیں میرے خیال میں دونوں اطراف میں لوگوں کو غور کرنا چاہیے،ریاست کا تقدس اشخاص سے بہت بڑا ہے۔

انہوں نے کہا کہ براہمداغ بگٹی کی سیاسی پوزیشن ہے، مسلح جدوجہد پر یقین رکھتے ہیں،

شاہ زین بگٹی کی اپنی سیاست ہے، پارلیمان کی سیاست کر رہے ہیں۔انوارالحق کاکڑ نے کہا کہ جب اکبر بگٹی کی ہلاکت ہوئی تب ایک لیفٹیننٹ کرنل، ایک صوبیدار میجر اور دیگر کی ہلاکت ہوئی،اب میں کیا رائے قائم کروں کہ ان میں کون درست مرا اور کون غلط مرا؟انہوںنے کہاکہ وہ پاکستان کا یونیفارم پہن کر لڑ رہے تھے ان کے لواحقین اور پیاروں کو کیا جواب دیا جائے کہ کس کی لڑائی لڑ رہے تھے؟

نگراں وزیراعظم نے کہا کہ دوسری طرف پولیٹیکل موومنٹ سے متعلق لوگ ان کی ہلاکت کو بھی ایشو بناتے ہیں،یہ کمپلیکس ہے اتنا سادہ حساب کا جواب نہیں۔انہوں نے کہا کہ براہمداغ بگٹی آزاد بلوچستان کی ریاست بنانا چاہتے ہیں،

وہ ہدف کے حصول کیلیے مسلح جدوجہد کو جائز سمجھتے ہیں۔

انوارالحق کاکڑ نے کہا کہ ایسی صورت میں ان کو کسی نے غدار قرار دینا ہے یا نہیں قرار دینا تاریخ کو فیصلہ کرنے دیں۔سوال کیا گیا کہ پہلے بھی آزاد بلوچستان کی تحریک چلی، سب کو ٹرائل پر چھوڑ دیا گیا،

سب کو افغانستان سے واپس بلایا گیا، ایک طرح سے مفاہمت پہلے بھی ہوچکی ہے، اب دوبارہ کیوں نہیں ہوسکتی؟

س پر وزیراعظم نے جواب دیا کہ ایک بار کسی سے مفاہمت ہوتی ہے پھر وہی لوگ 20سال بعد اسی تحریک کی طرف مائل ہوجاتے ہیں،اس پر غور و فکر کرنا چاہیے کہ مفاہمت ہونی چاہیے یا نہیں؟ کوئی نا کوئی سبق ریاست کو بھی سیکھنا ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہی وہ تمام سوالات ہیں میرے خیال میں دونوں اطراف غور ہونا چاہیے،غور کرنے کے بعد پھر کوئی پالیسی اخد کرنی چاہیے۔